پچھلے کئی دنوں سے یہ خبرگرم ہے کہ امریکہ کے حکم پرآئی ایم ایف نے پاکستانی مالی شہہ رگ پراپنا دبائو بڑھادیاہے اورامریکی خواہش یہ ہے کہ ہماری مرضی کے ساتھ سانس لینے والا مریض کسی دوسرے طبیب سے علاج نہیں کرواسکتا۔یہ بھی شنیدہے حالیہ امریکی اورپاکستانی متعلقہ اداروں کے مذاکرات بھی بری طرح ناکام ہوگئے ہیں اورکچھ اطلاعات تویہ بھی ہیں کہ اب تعاون نام کی چڑیا کسی انہونی منزل کی طرف پروازکرگئی ہے اوراس کوقابوکرنے کے لئے پاکستان میں امریکی سفیرڈونلڈبلوم کی رات کے اندھیرے میں فوادچوہدری کے گھر ملاقات نے سارابھیدبھی کھول کررکھ دیاہے۔ یادرہے کہ پاکستان کودولخت کرتے وقت پاکستان میں متعین امریکی سفیر فارلینڈ سابقہ ایف بی آئی ایجنٹ کاکرداربھی یہی تھا اوروہ بھی ان دنوں پاکستان کے مختلف سیاستدانوں سے ملاقاتوں میں اپناگھناؤناکردار ادا کرتا رہا۔امریکہ نے فیصلہ کیاہے کہ وہ کسی بھی صورت پاکستان کوروس اورچین کے بلاک میں جانے سے روکے گاکیونکہ افغانستان میں رسوائی کے بعداب دنیاکی واحد اورپہلی مسلم ایٹمی طاقت اورخطے کی سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والی لوکیشن ان کے ہاتھ سے نکلنے کاصدمہ ’’ون ورلڈ‘‘منصوبے کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوسکتاہے۔اس کے لئے خطے میں ’’ٹرائیکا‘‘(انڈیا، اسرائیل اورامریکہ)کھل کر میدان میں آگئے ہیں۔ ٹرمپ کے زمانے میں عرب ملکوں میں حاصل کردہ کامیابیوں کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ چین کی موجودہ معاشی اورخارجہ پالیسیوں نے ایک بڑی رکاوٹ کھڑی کردی ہے۔چین کی کاوشوں نے سعودی عرب اورایران کے مابین جس ڈرامائی اندازمیں دشمنی کوقربت میں بدل دیا ہے،افریقاکے بعدعربوں میں بھی چین کی مقبولیت نے امریکہ ومغرب کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ امریکہ جہاں اس خطے کی نئی تاریخ لکھنے کاآغازکرنے جارہاہے،کیاآنے والے وقت میں یہ حرفِ انکارمؤثرہوگااس کے بارے میں کچھ قیاس آرائی کرناقبل ازوقت ہوگالیکن پاکستان جواس وقت چاروں جانب سے خطرات میں دھکیلا جارہا ہے کیا ہمارے خطرات کے کھلاڑی ان سے بروقت نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ان خدشات کاجواب تحریر کرنے سے پہلے امریکہ اورپاکستان کے تعلقات کے بارے میں نجانے کیوں مجھے ایک چھوٹا سا واقعہ یادآرہا ہے اورمیں چاہتاہوں کہ پہلے اسے قارئین کی نذر کردوں۔ گاؤں کے ایک چھوٹے سے گھرمیں دوبھائی اکٹھے رہتے تھے۔چھوٹابھائی اپنے گھرمیں رکھی دیوتاکی مورتی کی بڑے اخلاص کے ساتھ پوجاکرتاتھالیکن بڑابھائی اپنے باغیانہ خیالات کی بناپراس مورتی کی نہ صرف پوجاپاٹ سے منکرتھابلکہ اس مورتی کو ہروقت برابھلا کہتارہتاتھا۔ایک دن چھوٹے بھائی نے اپنے بڑے بھائی کے اس عمل پراحتجاج کیاتو بڑے بھائی کوغصہ آگیااواس نے اعلان کردیا کہ میں کل صبح تمہارے اس دیوتا بت کاسرقلم کردوں گا،تم اورتمہار ا دیوتا جو کرسکتا ہے،وہ کرلے۔چھوٹے بھائی نے کافی منت سماجت کی لیکن بڑے بھائی کے ارادے کوتبدیل کرنے میں ناکام رہا۔رات چھوٹابھائی اسی خوف و پریشانی کی حالت میں کچھ لمحوں کے لئے بسترپرجب سویاتواس کا دیوتاہاتھ میں تلوارتھامے خواب میں آیااوراس کودھمکی دی کہ اگرتمہارے بھائی نے اپنے ارادے پرعمل کیاتومیں اس تلوارسے تمہاری تکہ بوٹی کردوں گا۔چھوٹے بھائی نے گڑگڑاکرہاتھ باندھتے ہوئے دیوتا سے عرض کی کہ میں توتیراسچابالک ہوں اوراگرتکہ بوٹی کرنے کاارادہ ہے تومیرابڑابھائی اس کاحقدارہے جودن رات تیری توہین کرتا ہے۔ دیوتانے فورااپنی تلوارنیچی کرتے ہوئے بڑی عاجزی اورمسکینی سے کہا’’میں اس کوکیسے سزادوں جومجھے مانتاہی نہیں‘‘۔ شائد امریکہ اورپاکستان کاتعلق بھی دیوتااور چھوٹے بھائی جیساہے۔ہمیشہ پاکستان کوہی اس ’’پوجا پاٹ و پرستش ،محبت اور وفاداری ‘‘کا نقصان اٹھاناپڑ، اور اس کے برعکس بھارت نے امریکا کے ساتھ ہمیشہ وہ رویہ رکھا جو بڑا بھائی بت کے ساتھ روا رکھتا تھا۔ چنانچہ بھارت نے امریکہ سے ہر دور میں منہ مانگی مرادیں، نعمتیں اور رفعتیں حاصل کیں اور ہمیں ہمیشہ دغابازی، رسوائی اور دھوکہ بازی کے سواکچھ حاصل نہ ہوا۔اوباما کے دورحکومت میں امریکی خارجہ سیکرٹری ہلیری کلنٹن نے اپنے ایک انٹرویومیں وہی بیان دہرایاتھاجوان سے دو سال قبل میری لینڈمیں ایک اخبارنویس نے امریکی سینٹ کے اہم رکن اورخارجہ پالیسی کمیٹی کے سرگرم رہنما رابرٹ ٹوری سیلی سے یہ سوال پوچھا کہ’’ بھارت جنوبی ایشیاکوایٹمی جنگ کی طرف دھکیل رہاہے ،امریکا اپنااثرو رسوخ استعمال کرکے مسئلہ کشمیرحل کیوں نہیں کروادیتا؟‘‘توٹوری سیلی نے بلاتوقف اس کاجواب دیاکہ ’’ہم بھارت کومسئلہ کشمیر حل کرنے پرمجبورنہیں کرسکتے کیونکہ امریکہ اوربھارت کے درمیان تجارتی اوردفاعی کسی سطح پرکوئی معاہدہ موجودنہیں،ہاں البتہ پاکستان کے ساتھ ہمارادفاعی اورمعاشی تعاون جاری ہے لہٰذاہم پاکستان کوہربات ماننے پرمجبورکرسکتے ہیں‘‘۔ یہ ہے امریکی دیوتاؤں کی وہ سوچ جوہردور میں امریکہ کی فارن پالیسی کامحوررہی کہ ہراس چھوٹے ملک کوجوہرچھوٹے بڑے بحران میں امریکہ کا ساتھ دے، اسے وفاداری،دوستی اورتعاون کی پوری پوری سزادی جائے اورہروہ ملک جوامریکاکے ساتھ وہ سلوک کرے جوبڑابھائی صبح وشام دیوتابت کے ساتھ کیاکرتا تھاتواسے اس نافرمانی اورگستاخی کاپورا ’’معاوضہ‘‘ دیاجائے۔ دور نہ جائیں ،آپ پاک بھارت میں جاری کشمکش میں امریکی کردارکوملاحظہ کریں۔ہم نے امریکی خواہش پرسیٹو اور سینٹو معاہدوں میں شرکت کرکے اپنی خود مختاری کوکئی مرتبہ داؤپرلگایالیکن پاک بھارت کی دونوں جنگوں میں امریکاکاجھکاؤمکمل طورپربھارت کے ساتھ رہابلکہ چندبرس پہلے جب کارگل کامسئلہ پیداہواتوکلنٹن کے مشیر برائے جنوبی ایشیاء بروس ریڈل کے مطابق کلنٹن نے باقاعدہ خط لکھ کرنوازشریف کوفوجیں واپس بلانے کاحکم دیاجبکہ واجپائی سے صرف تحمل وضبط کی درخواست کی گئی،جب نواز شریف نے امریکاآنے کی درخواست کی تواس وقت انہیں یہ حکم دیاگیاکہ ’’اگرآپ فوجیں ہٹانے پررضامندہیں توآئیں ورنہ زحمت نہ کریں‘‘۔اس دورے کے دوران واجپائی نے کسی قسم کی کوئی گرمجوشی نہ دکھائی ۔اس عدم تعاون کاآنے والے گھنٹوں میں بھارت نے ناقابل یقین فائدہ اٹھایااور پاکستان نے ناقابلِ تلافی نقصان اٹھایا۔ پاک بھارت سرحدوں پرفوجی اجتماعات کافائدہ بھی ہمیشہ بھارت کے حصے میں آیا۔بھارت جو ہمیشہ سردجنگ میں امریکہ کے شدیدمخالف روس کا دوست رہا لیکن روس کے ٹوٹنے کے فوری بعداس نے بڑی سرعت کے ساتھ امریکاکیساتھ ایسادوستی میں اضافہ کیاکہ اب امریکا کی ساری نوازشات کودن رات سمیٹ رہاہے اوراب امریکابھارت کوساؤتھ ایشیا میں اپناسب سے بڑااتحادی سمجھتاہے۔ (جاری ہے)
