ٹوکیو ( نیوز ڈیسک )جاپان کی حکومت نے پیش گوئی کی ہے کہ آئندہ 30 سالوں میں ’میگا زلزلہ‘ آنے کا امکان 82 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ماہرین پر مشتمل حکومتی پینل نے کہا ہے زلزلے کی شدت 8 سے 9 میگنیٹیود ہو سکتی ہے جو بہت ہی بڑے سونامی کا سبب بنے گا، کئی ہزار افراد ہلاک ہوں گے اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوگا۔
زلزلہ ریسرچ کمیٹی کا کہنا ہے کہ پچھلے سال تک اس شدت کے زلزلے کا 74 سے 81 فیصد تک امکان موجود تھا جو اب 75 سے 82 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔ماہرین کے مطابق زلزلے کا مرکز جنوب مغربی جاپان میں بحرالکاہل کے ساحل کے قریب زیرِ سمندر ایک مقام ہے جو ننکائی ٹرف کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ننکائی ٹرف جاپان کے ہونشو جزیرہ کے جنوب میں واقع ننکائیڈو کے مقام پر ایک گہری جگہ ہے جہاں دو ٹیکٹونک پلیٹس ٹکراتی ہیں۔ 800 کلومیٹر طویل ننکائی ٹرف جاپان میں بحرالکاہل کے ساحل کے متوازی سمندری چینل ہے۔
زیرِ سمندر ٹیکٹونکس پلیٹس حرکت کے دوران پھنس جاتی ہیں جس سے بڑی مقدار میں توانائی جمع ہو جاتی ہے۔ یہ توانائی پلیٹس کے علیحدہ ہونے کی صورت میں ریلیز ہوتی ہے جس کے نتیجے میں انتہائی تباہ کن زلزلہ آ سکتا ہے۔
گزشتہ 1400 سالوں میں ہر ایک یا دو سالوں بعد ننکائی ٹرف میں شدید زلزلے آتے رہے ہیں۔ آخری مرتبہ 1946 میں ننکائی ٹرف میں زلزلہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔زلزلہ ریسرچ کمیٹی کے ایک عہدیدار نے میڈیا کو بتایا کہ آخری زلزلہ آئے 79 برس ہو گئے ہیں اور ہر گزرتے سال کے ساتھ اگلے زلزلے کا امکان ایک فیصد بڑھ رہا ہے۔‘حکومتی اندازے کے مطابق ساحل کے قریب چھوٹے جزیرے سونامی کی 30 میٹر اونچی لہروں کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔
جبکہ گنجان آباد ہونشو اور شکوکو کے جزیرے زلزلے کے چند منٹوں میں ہی بڑی لہروں کی زد میں آ سکتے ہیں۔ماہرین کے مطابق سنہ 1707 میں ننکائی ٹرف کے تمام حصے ایک ساتھ ہی پھٹ پڑے تھے جس سے تباہ کن زلزلے نہ جنم لیا اور جو جاپانی قوم کی ریکارڈ شدہ تاریخ کا دوسرا شدید ترین زلزلہ تھا۔
مزیدپڑھیں: کرم سے بگن جانے والے تیسرے قافلے پر راکٹ حملہ، گاڑیاں واپس روانہ