اسلام آباد(اے بی این نیوز)وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات سینیٹرمحمداسحاق ڈارنے قومی اقتصادی سروے 23۔2022 کے اجراء کے موقع پرتحریک انصاف اورپاکستان مسلم لیگ ن کی سابق حکومت کی کارگردگی کاتفصیل سے موازنہ کیا۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ پاکستان مسلم لیگ ن نے 2013 سے لیکر2018 تک کی مدت میں آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام مکمل کرنے کے علاوہ کلی معیشت کے استحکام کو یقینی بنایا اوردانشمندانہ پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بن گئی جسے گزشتہ ساڑھے 4 برسوں میں ناقص کارگردگی کی وجہ سے 47 نمبر پرپہنچایا گیا۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے مجموعی قومی پیداوار(جی ڈی پی) کو 2013 میں 3.9 فیصد سے بڑھا کر 2018 میں 6.1 فیصد تک پہنچا دیا، اس مدت میں مجموعی طورپر جی ڈی پی میں دو فیصد کااضافہ ہوا، اس کے برعکس پی ٹی آئی کی حکومت کے ابتدائی دوسالوں میں جی ڈی پی کی شرح میں کمی آئی اورآخری سال میں بیس (base) سال کوتبدیل کرکے جی ڈی پی کو 6 فیصد دکھا یا گیا۔مسلم لیگ ن کے دورمیں بلحاظ حجم جی ڈی پی میں 97.9 فیصدکی نموہوئی جبکہ پی ٹی آئی کے دورمیں 18.7 فیصد کی نمودکھائی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ 2013 میں فی کس آمدنی 1446 ڈالر تھی جو2018 میں 1768 ڈالر ہوگئی، اس کے برعکس پی ٹی آئی کے دورمیں اس میں دوفیصدکی کمی آئی، 2018 میں صارفین کیلئے قیمتوں کااشاریہ 4 فیصد تھاجو 2022 میں 12.2 فیصد پرپہنچ گیا،2018 میں اشیاء خوراک کی مہنگائی کی شرح 3.8 فیصدتھی جو2022 میں 13.4 فیصدکی سطح پرپہنچ گئی۔2018 میں بنیادی افراط زر5.8 فیصدتھا جو2022 میں 8.1فیصد ہوگیا، 2018میں درآمدات کاحجم 55.7 ارب ڈالرتھا جو2022 میں 71.5 ارب ڈالرہوگیا،جی ڈی پی کے تناسب سے درآمدات کاحجم 2018 میں 15.6 فیصدتھا جو 2022 میں 19فیصدتک پہنچ گیا۔2018 میں زرمبادلہ کے ذخائر کاحجم 16.4 ارب ڈالرتھا جو مالی سال 2022 میں 15.5 ارب ڈالرہوگیا، قرضوں کاحجم 2018 میں 24953 ارب تھا جو2022 میں 49242 ارب روپے ہوگیا، بیرونی قرضوں کاحجم 2018 میں 70.2 ارب ڈالرتھا جو2022 میں 88.8 ارب ڈالرہوگیا۔
