اہم خبریں

ملک بھر میں ایک ہی دِن انتخابات ہونے چاہئیں، حکمران اتحاد

لاہور(اے بی این نیوز)حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے قراردیاہے کہ ملک بھر میں ایک ہی دِن انتخابات ہونے چاہئیں ، غیرجانبدارانہ، شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کےبنیادی دستوری تقاضے سے انحراف ملک کو تباہ کن سیاسی بحران میں مبتلا کردے گا،یہ صورت حال ملک کے معاشی مفادات پر خود کش حملے کے مترادف ہوگی،لشکر اور جتھوں سے ریاستی اداروں پر حملہ آور ایک جماعت کے دبائو پر پورے ملک میں مستقل سیاسی وآئینی بحران پیدا کرنے کی سازش کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی،آئین کے آرٹیکل218 (3 ) سمیت دیگر دستوری شقوں کے تحت انتخاب کرانا الیکشن کمشن کا اختیار ہے، سپریم کورٹ کو آئین کے تحت ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ہفتہ کو وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں سابق صدر آصف علی زرداری، پی۔ڈی۔ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹوزرداری، مریم نواز شریف سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین اور راہنمائوں نے شرکت کی۔ اجلاس وڈیو لنک کے ذریعے منعقد ہوا۔اجلاس نے ملک کی مجموعی صورتحال پرتفصیلی غور کیا اور مستقبل کی حکمت عملی پر مشاورت کی۔اجلاس کے اختتام پر جاری کئے گئے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اجلاس نے مطالبہ کیا کہ ملک بھر میں ایک ہی دِن انتخاب ہونے چاہئیں۔یہ غیرجانبدارانہ، شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کا بنیادی دستوری تقاضا ہے جس سے انحراف ملک کو تباہ کن سیاسی بحران میں مبتلا کردے گا۔یہ صورت حال ملک کے معاشی مفادات پر خود کش حملے کے مترادف ہوگی۔ اجلاس نے واضح کیا کہ لشکر اور جتھوں سے ریاستی اداروں پر حملہ آور ایک جماعت کے دبائوپر پورے ملک میں مستقل سیاسی وآئینی بحران پیدا کرنے کی سازش کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔ بدقسمتی سے ایک انتظامی معاملے کو سیاسی وآئینی بحران بنادیاگیا ہے۔ معاشی، سکیورٹی، آئینی، قانونی اور سیاسی امورکو نظرانداز کرنا ریاستی مفادات سے لاتعلقی کے مترادف ہے،خاص مقصد اور جماعت کو ریلیف دینے کی عجلت سیاسی ایجنڈا دکھائی دیتا ہے ۔ یہ آئین وقانون اور الیکشن کمیشن کے اختیار کے بھی منافی ہے۔ آئین کے آرٹیکل218 (3 ) سمیت دیگر دستوری شقوں کے تحت انتخاب کرانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، سپریم کورٹ کو آئین کے تحت ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ یہی فیصلہ سپریم کورٹ کے چار معزز جج صاحبان ازخود نمبر 1/2023میں دے چکے ہیں۔اجلاس چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کرتا ہے۔ اور تقاضا کرتاہے کہ ازخود نوٹس نمبر 1/2023 کے چار رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اقلیت کے فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ یہ طرز عمل ملک میں ایک سنگین آئینی وسیاسی بحران ہی نہیں بلکہ آئین اور مروجہ قانونی طریقہ کار سے انحراف کی واضح مثال ہے۔جو ریاست کے اختیارات کی تقسیم کے بنیادی تصور کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اجلاس نے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے 184 (3 ) کے تحت تمام مقدمات کی سماعت روکنے کا حکم دیا ہے۔ متضاد عدالتی فیصلوں سے ناقابل عمل اور پیچیدہ صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینچ کے فیصلے کا احترام کرنا بھی سب پر لازم ہے۔اجلاس نے مطالبہ کیا کہ پاکستان بار کونسل اور دیگر بار ایسوسی ایشنز کی طرف سے آرٹیکل 209کے تحت دائر کردہ ریفرنسز پر کارروائی کی جائے۔اجلاس نے واضح کیا کہ جسٹس اعجاز الاحسن تو پہلے ہی اس مقدمے میں رضا کارانہ طورپر بینچ سے الگ ہوچکے تھے لہذا وہ موجودہ بینچ کا حصہ نہیں ہوسکتے۔ اس بابت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے آرڈرز واضح ہیں ، یہ سب کچھ ریکارڈ پر بھی موجود ہے۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اجلاس نے چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ سپریم کورٹ کے بینچز میں اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو ادارے کے سربراہ کے طورپر سنیں اور فی الفور فل کورٹ اجلاس کا انعقاد کریں۔ تاکہ “وَن۔ مین۔شو” کا تاثر ختم ہو۔اجلاس نے آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر تین رکنی فیصلے کو سیاسی عدم استحکام کاباعث قرار دیا۔ جس کے ذریعے آئین کو ری رائیٹ کیا گیا۔اجلاس نے یہ بھی قرار دیا کہ اعلیٰ ترین عدالت کی سوچ میں تقسیم واضح نظر آرہی ہے۔ لہذ…

متعلقہ خبریں