اہم خبریں

ملکی مو جودہ صورتحال میں سیاسی کھینچا تا نی کسی کے حق میں نہیں ، جام کمال خان

اوتھل(اے بی این نیوز)سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ ملکی مو جودہ صورتحال میں سیاسی کھینچا تا نی کسی کے حق میں نہیں ،سب کو مل بیٹھ کر مو جو دہ حالات کا مقابلہ کر نا ہو گا ،ہما رے پا س اختیار نہیں جیسے جملے سے کو ئی بھی سیاست دان برالذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ، مہنگا ئی دنیا بھر میں بڑھ رہی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن) اورعمران خان سب کو مواقع ملے مگر نظام (اسٹریکچر )کو کسی نے نہ بدلا ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے سرکٹ ہائوس اوتھل میں صحافیوں سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی ومعاشی حالات سے عوام کو تشویش ہے گزشتہ ایک سال سے لوگوں پر مشکل وقت آیاہے اور اس دوران پاکستان میں سیاسی استحکام پر اثرپڑاہے جس ماحول میں بے چینی کی کیفیت ہو اور یہ پتہ نہ چل رہاہوکہ ہوکیا رہاہے موجودہ حالات ایسے نہیں کہ جس پر حکومت اور اپوزیشن جس طرح الگ الگ پیجوں پر لڑرہے ہیںکوئی کہتا ہے الیکشن کرائو کوئی کہتاہے کہ الیکشن مت کرائوپہلی مرتبہ ملک میں ایسے حالات ہیں جسکی ماضی میں نظیر نہیں ملتی پاکستان میں پہلی بھی کئی مرتبہ بُرا وقت آیا لیکن کسی میں کوئی تقسیم نہیں تھی اب لوگوں میں جو دراڑیں پیدا ہوئی ہیں یہ ملک کیلئے کسی صورت اچھا نہیں اس ساری صورتحال کی ذمہ داری ہم سیاستدانوں پر آتی ہے چاہے ہم اسکوتسلیم کریں یا نہ کریں کئی مرتبہ سیاستدان یہ کہتے ہیں ہمارے پاس اختیار نہیں ہے اختیار دوسروں کے پاس ہے اس سے برعکس ہیں تو ہم عوامی لوگ اس سے اپنے آپ کو بری الزامہ قرار نہیں دے سکتے چاہے جو بھی صورتحال ہوعوامی لوگ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں اس صورتحال پر بیٹھیں اور اسکا ایک راستہ نکالنا چاہیے دنیا کے اندر معیشت پر بھی بڑا پریشر پڑرہاہے امریکہ ،یورپ،چائنامیں بھی مہنگائی بڑھ رہی ہے انویسٹ وہاں بھی کم ہورہی ہے اسکا اثربھی پاکستان پر پڑرہاہے ایسا نہ ہوکہ اسکاآنے والے تین چارماہ میں وہ پریشر بھی پاکستان پرآئے اور اندورنی دبائو بھی ملک پر ہواس سے لوگ مزید مشکلات کا شکارہونگے انہوںنے کہاکہ ہمارا جو حکومت کرنے کا ڈھانچا یا نظام ہے اس کے اندر بہت ساری کمزوریاں ہیں اگر ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس ڈھانچے کے ساتھ پاکستان کو اکیسویں صدی کے لوگوں کو غربت سے نکال کرآگے لے جائیں گے تو یہ ناممکن ہے اور میں بڑا کھلاہوکر یہ کہتاہوں کہ ہم اس موجودہ ڈھانچے کے ساتھ دنیا کے ساتھ ترقی میں مقابلہ نہیں کرسکتے تعلیم ،صحت،ٹیکنالوجی،کاروبار میں نہیں کرسکتے ہم جب تک اپنے نظام کے اندر ریفارمز نہیں لاتے اور اس پرانے اور کمزور نظام کو نہیں دور کرسکتے تو ملک کیا عام آدمی بھی اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتااسکے باوجود کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسکا حل الیکشن ہے تو مجھے اسکا حل الیکشن بالکل نظر نہیں آرہاالیکشن کا مطلب ہے چہروں کا بدلناایک پارٹی نہیں دوسری پارٹی آجائیگی عمران خان کو موقع ملا،نوازشریف اور پیپلزپارٹی کو موقع ملالیکن نظام کو بدلنے میں کسی نے کام نہیں کیا نظام سے مراد اسٹریکچر ہے گورننس کا کیا یہ آسانی پیداکرتاہے یامشکلات یہ وہی نظام ہے جو پچاس ساٹھ سال سے پہلے تھا آج بھی وہی نظام ہے ان پچاس ساٹھ سالوں میں ہم نے تو اس نظام میںکوئی آسانی نہیں دیکھی البتہ مسائل زیادہ دیکھے ہیں پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ ہم بڑے بڑے ممالک سے مقابلہ کریں گے میرے خیال میں یہ ناممکن ہے اگر پاکستان کو پندرہ بیس سالوں میں ترقی یافتہ بنانا ہے تو سب سے پہلے بیٹھ کراسکا ڈھانچہ ٹھیک کرنا ہوگا منزل پر پہنچنے کیلئے ہم ایک ایسی گاڑی کے ڈبے میں بیٹھے ہیں جو ڈبہ چل ہی نہیں رہااور اس ڈبے کو آج کے دور میں چلنے کی سکت ہی نہیں ہے انہوںنے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو سے پہلے میرے بڑے گلہ تھے لیکن جب سلیم صافی کی بات جب میرے سامنے آئی تو اس دن کے بعد میرا ذہن تبدیل ہوگیا قدوس بزنجو کا کوئی سیاسی منشور نہیں ہے لیکن دیگر جو پارٹیاں انکے ساتھ ہیں یہ پارٹیاں تو سیاسی منشور بھی رکھتی ہیں اور سیاسی گہرائی بھی رکھتی ہیں پھر بھی یہ سارے مشترکہ طورپر راضی ہیں کہ حکومت جو بھی ہے اچھی ہے بُری ہے عوام کی خدمت میں ہے یا نہیں لیکن ہم سب خوش ہیں تو پھر یہ سوال قدوس بزنجو پر نہیں پڑتایہ سوال انکے ساتھ شامل تمام پارٹیوں پر پڑتاہے یہ وزیر اعلیٰ ٹھیک ہے یا وہ سب پارٹیاں ٹھیک ہیں بلوچستان کے عوام کو یہ ذہن بنانا چاہیے کہ عوام خوش نہیں ہیں اگر عوام خوش ہیں تو بالکل ٹھیک ہے لیکن جہاں تک ہم بھی سنتے ہیں دیکھتے ہیں کہ بلوچستان میں بڑے مسائل ہیں اور بلوچستان کے ان مسائل کا حل قدوس بزنجو کے پاس کسی حدتک تو ہے کہ وہ کچھ کرسکتے ہیں لیکن ایک حد تک میں انکو اس چیز سے بری الزمہ سمجھتاہوں کہ انکی کابینہ اور انکے جو مدد کرنے والے ہیں وہ تو باقی پارٹیاں ہیں تو تمام ذمہ دار ی ان پارٹیوں پر عائد ہوتی ہے جو انکی سپورٹ میں کھڑے ہیں انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہاکہ میں کم از کم ثنا ء بلو چ سے یہ توقع ضرور کررہاتھا کہ ہماری اسمبلی کے اندر چندوہ لوگ ہیں جو اعداد وشمار کے حوالے سے اچھی اچھی تقاریر کرتے ہیں عوام کے اندر اچھی آگاہی پیداکرتے ہیں پھر ہماری نوجوان نسل کو یہ بتاتے ہیں کہ انٹرنیشنل لیول کے اسٹینڈرڈ کیا ہیں سوشل اکنامک اسٹینڈرڈ کیاہے تعلیم اور صحت کا معیار کیاہے یہ ساری چیزیں بڑے اچھے طریقے سے پیش کرکے عوام کو اور نوجوانوں کو گائیڈ بھی کرتے ہیں اور بتاتے بھی ہیں لیکن پچھلے ایک سال سے انکی جانب سے اس حکومت کے حوالے سے مکمل خاموشی یقینی طورپر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کیا ثناء بلوچ کے وہ سارے سوالات میری حکومت سے تھے صرف اس وجہ سے کہ ہم کام کررہے تھے اور آج انہی کے حلقوں اور پارٹیوں کے لوگ اپنے منہ اور زبان سے خود ہمارے کام یا ہماری چیزوں کے بارے میں ذکر کررہے ہیں تو میں سمجھتاہوں یہ اللہ کا بہت بڑا کرم ہے اور ہم نے یہ نہیں کہا کہ ہم نے بہت بڑا کارنامہ کیا ہم نے وہ کام کیا جو ہمیں کرنا چاہیے تھاآج بلوچستان نیشنل پارٹی یا باقی پارٹیوں کی خاموشی پر انکو سیاسی جھٹکا ضرور لگاکیونکہ پچھلے چھ آٹھ مہینوں میں جب میں کوئٹہ گیا باقی علاقوں میں میں نے دوستوں کے ساتھ ملاقات کی یا رابطہ ہواہے تو پتہ چلا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی سے بہت سارے لوگ پارٹی چھوڑ کرجارہے ہیں بلکہ انکی اپنی سینٹرل کمیٹی کے اندر ایک بہت بڑا اختلاف پیداہواہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جب سے انہوںنے اس حکومت کو سپورٹ کیاہے اور آج تک سپورٹ کررہے ہیںتو روزانہ کی بنیاد پر انکی پارٹی کو نقصان اٹھانا پڑرہاہے اور لوگ اس چیز کو پسند نہیں کررہے تویہ میرے خیال ثناء بلوچ اور انکی پارٹی کے جتنے باقی لوگ ہیں وہ اس بات پر میرے خیال میں اتفاق رائے قائم کریں گے آگے جاکرجب انکی پارٹی کے اپنے لوگ یہ کہیں گے کہ اس ترقی کے حق میں کبھی نہیں تھے اگر ہم نے جام صاحب کی مخالفت اگر کی تو اس بنا پر کی کہ انکی حکومت ہم سمجھ رہے تھے کہ کام نہیں کررہی اس دور میں جو لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم کام ٹھیک نہیں کررہے یا ڈیوپلمنٹ نہیں کررہے عوام کے مسائل حل نہیں کررہے ہم عوامی لوگ نہیں ہیں تو یہ لوگ آج کے اس دور اور اس حکومت کا موزانہ کرلیں کہ ہماری حکومت نے کیا کیا اور وہ کیا کررہے ہیں تو انکی پارٹی کے لوگ آج ان سے سوالات کررہے ہیں انہوںنے لسبیلہ میں زمینوں کی لیز کے سوال کے جواب میں کہاکہ زمینوں کی لیز کے حوالے سے ہمار ا موقف بڑا واضح ہے کہ کیا یہ الاٹمنٹ پہلی بار لسبیلہ میںہورہی ہے کیا ماضی میں یہ الاٹمنٹ نہیں ہوئیںہم نے تو یہ آواز اس وقت اٹھائی جب موصوف( اسلم بھوتانی) اسپیکر تھے اور لیاری تحصیل کے اندر بیس ہزار ایکڑاراضی لیز کرکے دیدی گئی اور یہ اراضی ان کو دی گئی جنکا تعلق اس تحصیل سے توکیا بلکہ ضلع سے ہی نہیں تھا

متعلقہ خبریں