اہم خبریں

حقیقت کی جانچ محمد عثمان قاضی کے بارے میں سچائی

اسلام آباد(اے بی این نیوز)حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک لہر اٹھی ہے جس میں ڈاکٹر محمد عثمان قاضی کو ایک معزز تعلیمی شخصیت اور دانشور کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ وہ ریاستی جبر کا شکار ہیں۔

لیکن درج ذیل حقائق نہایت ہی پریشان کن ہیں۔گزشتہ 4 سے 5 سالوں کے دوران عثمان قاضی (عرف امیر) محض ایک یونیورسٹی پروفیسر نہیں تھے، بلکہ وہ کالعدم تنظیم بی ایل اےاور اس کے خودکش ونگ، مجید بریگیڈ کے کلیدی کارندے اور ہینڈلر (ذمہ دار) تھے۔

پس پردہ وہ BUITEMS یونیورسٹی کے پلیٹ فارم کو نوجوان طلبہ کو انتہاپسندی کی طرف مائل کرنے اور بھرتی کرنے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ کلاس روم صرف تعلیم کے لیے نہیں بلکہ دہشت گرد نظریات پھیلانے کے لیے استعمال ہو رہا تھا.

یہ سب کچھ اس کے باوجود کہ ان کی پوری تعلیمی زندگی ریاست کے خرچ پر مکمل ہوئی تھی۔ انہوں نے سرکاری اسکالرشپ پر اعلیٰ تعلیم حاصل کی، QAU سے پی ایچ ڈی کی، اور گریڈ 19 کا سرکاری عہدہ حاصل کیا۔ ان کی اہلیہ بھی گریڈ 17 پر سرکاری ملازم ہیں۔

وہ اور ان کا خاندان مکمل طور پر ریاستی سہولتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اس کے باوجود، قاضی نے ریاست سے غداری کی۔ وہ دہشت گرد گروہوں کے ساتھ مل گئے، حملوں کو سہولت دی، اور ایسے نیٹ ورکس کی پشت پناہی کی جنہوں نے بے گناہ لوگوں سمیت سیکیورٹی فورسز کو نقصان پہنچایا۔ وہ بی ایل اے کمانڈرز بشیر زیب، رحمان گل اور ڈاکٹر ہیبتان بلوچ کے احکامات پر کام کرتا رہا۔

یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اس نے دہشت گرد بابر رفیق کو 9 نومبر 2024 کو کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خودکش حملے کے لیے بھیجا جس میں 32 عام شہری اور 22 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے جبکہ 55 سے زائد زخمی ہوئے۔ اور یہ سب کچھ ختم نہیں ہوا، وہ 14 اگست کو کوئٹہ میں ایک اور حملے کی تیاری کر رہا تھا تاکہ دہشت گرد شیر دل (بہاؤالدین مری) کو پناہ دے سکے اور فورسز کی کارروائیوں سے بچا سکے۔

اب سوشل میڈیا پر بی ایل اے سے وابستہ گروہ اس کو “عوام کی فکری آواز” کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ یہ نہ تو کوئی غلط فہمی ہے اور نہ ہی کسی اور کی شناخت کو اس کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ بلکہ یہ بیانیہ وار فیئر ہے تاکہ ایک انتہاپسند کو علمی لبادہ پہنا کر بچایا جا سکے۔حقیقت کو مسخ کرنے کی کوشش کو مسترد کرنا ضروری ہے۔

حقائق اہم ہیں۔یہاں چند سوالات اٹھتے ہیں ۔ ریاست مخالف بیانیہ:اگر ایک شخص جس نے مکمل طور پر ریاستی وظائف، اسکالرشپس اور سرکاری ملازمت سے فائدہ اٹھایا ہو، پھر بھی دہشت گردی کے نیٹ ورکس کو سہولت دیتا ہے تو ایسے شخص کو مظلوم یا دانشور کے طور پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟ صحافیوں اور دانشوروں سے سوال:

صحافی جب ایسے افراد کے حق میں لکھتے یا بولتے ہیں، تو کیا آپ کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ آپ ایک ایسے نیٹ ورک کو تقویت دے رہے ہیں جس نے درجنوں بے گناہوں کو شہید کیا؟ بیانیہ جنگ (Narrative Warfare):کیا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ دراصل بیانیہ جنگ ہے جس میں دہشت گردی کو نظریاتی جدوجہد کا نام دیا جا رہا ہے؟ اگر ہاں تو پھر آپ کس کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں؟

ریاستی وسائل کا استحصال:اگر کوئی شخص ریاست کے پیسوں پر تعلیم حاصل کرے، سرکاری عہدے پر فائز ہو اور پھر انہی وسائل کے خلاف بغاوت کرے تو کیا یہ صریحاً ریاستی دھوکہ دہی اور غداری نہیں؟

. میڈیا اور سوشل میڈیا کا کردار:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میڈیا پر ایسے افراد کو فکری رہنما یا ریاستی جبر کا شکار دکھانا عوام کو گمراہ کرنے اور دہشت گردی کو جواز فراہم کرنے کے مترادف نہیں؟۔
مزید پڑھیں: تمام تعلیمی ادارے 5 روز کیلئے بند رکھنے کا اعلان

متعلقہ خبریں