اسلام آباد ( اے بی این نیوز )پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سینیٹر ہمایوں مہمند اے بی این نیوز کے پروگرام تجزیہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب میں جو باہر نکلنے کی جھجک تھی وہ اب ختم ہو گئی ہے آپ نے دیکھا ہے کہ کے پی میں پی ٹی آئی کے بڑے بڑے جلسے ہوئے ہیں ۔ سندھ میں کراچی اور حیدرآباد سمیت ہر جگہ پر خاص تعداد میں لوگ نکلے۔ لیکن وہاں حکومت خوفزدہ تھی اور ان کی کانپیں ٹانگ گئی تھیں لیکن جو مین جگہہےجہاں پر ایک خوف کا عالم ہے جہاں پر غیر جمہوری حکومت بیٹھی ہے آپ نے دیکھا ہے کہ اس جگہ پر کوئی خاص سیاسی سرگرمی نہیں ہوئی اور لوگ سر نہیں اٹھا سکتے لیکن وہاں پر بھی لوگوں کی ایک خاص تعداد باہر نکلی ہے باہر نکلنے والوں کے خلاف ان حکمرانوں نے ایف آئی ار کاٹی ہیں ۔ اس سے پہلے چار پانچ سو لوگوں کو گرفتار کیا ہے صرف اس وجہ سے کہ جن لوگوں نے لال سرخ رنگ کے غبارے اڑائے تھے انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔
پارلیمنٹیرین کو باہر نہیں نکلنے دیا یہ ایکشن بتاتے ہیں کہ حکومت کتنے گھبرائی ہوئی ہے انہوں نے یہ اقدام اس لیے کیا کہ جوممبران قومی اسمبلی اور سینیٹر ہیں وہ اڈیالہ جیل تک نہیں ہے پہنچ سکیں دراصل ہمیں بھی پتہ نہیں تھا کہ ہم نے اڈیالہ جیل کی طرف جانا ہے یا نہیں جانا ہے۔دیکھیں باہر نکلنا ایک علیحدہ چیز ہے اور منزل کا تعین ہونا ایک علیحدہ چیز ہے لوگ باہر نکلے ہیں لیکن کیا سارے لوگ اڈیالہ گئے یا نہیں گئے کہ بھی میں جو لوگ نکلیں ہیں۔ انہوں نے وہاں پر جلسوں کا انعقاد کیا اسلام اباد میں بھی مختلف جگہوں پر لوگ نکلے پنجاب میں پھر نکلے زیادہ تر لوگ باہر نکلے لیکن اڈیالہ کی جانب سارے نہیں گئے۔ ایم این اے جو اپنے حلقے میں آسانی سے جا سکتے ہیں وہ جائیں اور جو یہاں احتجاج کر سکتے ہیں وہ کریں اور یہاں سے اڈیالہ جیل جائیں گے ان لوگوں نے پارلیمنٹ سے اکٹھے ہو کر نکلنا تھا اور رٹیالہ جال کی طرف جانا تھا۔
انہوں نے پارلیمنٹ کو جیل بنا دیا تھا اور ہمارے اراکین کو وہاں پر پابند کر دیا تھا۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سب کو خطرات ہیں اب بات یہ ا جاتی ہے کہ کون ہے جس کو ہم نے سب سے پہلے دیکھنا ہے یہاں پر ہر ایک کی ذمہ داری ہوتی ہے لوکل ٹیم کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے کارکن کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے۔
ایم این اے کی اپنی ذمہ دار ہوتی ہے دراصل جو ممبران صوبائی اسمبلی کے لوگ تھے دراصل ان کی بھی اہم ذمہ داری تھی مختلف علاقوں سے ٹولیوں کو نکالا گیا ہم عوام کو بتانا چاہتے تھے کہ ہم نکلے ہیں اطلاعات یہ ہیں کہ لوگ گھروں سے باہر نکلیں اس خوف کی فضا کو توڑے اور قوم نے باہر نکل کر اس خوف کی فضا کو توڑ دیا ہے۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ایک سوچی سمجھی طرز پر ایک کام ہو رہا ہے جس میں مڈل کی قیادت اور عوام کو اپس میں دوریاں پیدا کرنا ہے اس میں کسی حد تک کامیابی بھی ہو رہی ہے کہ مخالفین کچھ چیزیں ایسی کرتے ہیں کہ عوام اور مڈل کلاس کی لیڈرشپ علیحدہ ہو جاتی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ عمران خان کے ساتھ عوام براہ راست رابطے میں رہتی ہے اب مڈل کلاس اور عوام جو ہم موٹر ہے ان کے درمیان میں باقاعدہ رابطے کا پل قائم رکھنے کے لیے کام کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ تحریک چل رہی ہے یہ 14 اگست کا انتظار نہیں ہوگا چھوٹے لیول پر یہ تحریک چلتی رہے گی اور 14 اگست کو ہم پھر متحد ہو کر نکلیں گے 14 اگست کی تحریک کے بارے میں قبل از وقت ابھی کچھ کہنا درست نہیں ہے ہماری کوشش ہے کہ ہم نکلیں اور اپنی غلطیوں کو درست کریں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں سے اختیارات واپس لینے، معدنی وسائل پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے اور گوادر کو وفاقی علاقہ قرار دینے کی اطلاعات پر سیاسی جماعتوں، خصوصاً جمیعت علماء اسلام (ف) کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
جے یو آئی (ف) کے رہنماحافظ حمداللہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر اس ترمیم کے ذریعے 18ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ نہ صرف صوبائی خودمختاری پر حملہ ہوگا بلکہ آئین 1973 کی روح کو بھی مسخ کرنے کے مترادف ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت مجوزہ ترمیم کے ذریعے ملک کے معدنی ذخائر اور قدرتی وسائل پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک ایسی فورس بنانے کا منصوبہ بھی سامنے آیا ہے جو وفاق کے زیر انتظام ہوگی اور صوبوں کی اجازت کے بغیر کہیں بھی تعینات کی جا سکے گی۔
حافظ حمداللہ نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ کسی بھی صوبے میں، بالخصوص بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں، معدنیات سے متعلق فیصلے وفاقی سطح پر ہوں اور بین الاقوامی معاہدوں میں صوبوں کو شامل نہ کیا جائے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ گوادر کو وفاقی علاقہ بنانے کی تجویز بھی زیر غور ہے، جو صوبائی خودمختاری پر ایک اور کاری ضرب ہوگی۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر 27ویں ترمیم اسی شکل میں لائی گئی جس کا تذکرہ موجود ہے، تو جے یو آئی (ف) اس کی بھرپور مزاحمت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے منظور کی گئی تھی، جس کے تحت صوبوں کو کچھ حد تک خودمختاری دی گئی، اور اب ان اختیارات کو واپس لینا پارلیمانی جمہوریت اور آئینی اصولوں کی نفی ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جیسی جماعتیں، جنہوں نے 18ویں ترمیم کے لیے کردار ادا کیا، کیا اب وہی جماعتیں اسے ختم کرنے کے لیے کردار ادا کریں گی؟ اگر ایسا ہوا تو یہ ان جماعتوں کے اپنے نظریاتی مؤقف سے انحراف ہوگا۔
حافظ حمداللہ نے یہ بھی کہا کہ 2024 کے عام انتخابات میں جو بے ضابطگیاں اور دھاندلی ہوئی، اسے ان جماعتوں نے تسلیم کیا، جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ اقتدار کے حصول کے لیے کسی بھی سطح تک جا سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج بھی ملک میں پارلیمان کی بالادستی نہیں بلکہ خوف اور جبر کی سیاست مسلط ہے، اور اگر آئین کو بچانا ہے تو یہ ان سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے جنہوں نے اس آئین کے لیے قربانیاں دی ہیں۔
مزید پڑھیں :ٹرمپ کامودی سرکارپرایک اوروار،بھارت پرمزید25فیصد ٹیرف عائد