اسلام آباد (اے بی این نیوز)رہنما پی ٹی آئی ر ؤف حسن نے کہا ہےعلی امین گنڈاپور کو آن بورڈ لے کر صدارت سے ہٹایا گیا۔ علی امین گنڈاپور ہی وزیراعلیٰ رہیں گے ،مجھے کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی۔
علی امین گنڈاپور بطور وزیراعلیٰ اچھا کام کررہے ہیں ،
جنیداکبر کی تعیناتی سے خیبرپختونخوا میں پارٹی مزید مستحکم ہوگی۔ پی اے سی کی سربراہ کی تعیناتی میں تاخیر حکومت کی نااہلی کی وجہ سے ہوئی۔ حکومت کا جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے ارادہ ہی نہیں تھا۔
جو حکومت ایک ملاقات تک نہیں کراسکی اس سے کیا توقع رکھی جائے گی۔ وہ اے بی این نیوز کے پروگرام سوال سے آگے میں گفتگو کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ
موجودہ حکومت کے پا س کوئی اختیار ہی نہیں ۔ مذاکرات کیلئے اچھا ماحول فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی۔ 31جنوری کی ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد آگے کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
طارق فضل چودھری نے کہا ہے کہ کوئی بھی بل پاس کرنے کا نارمل طریقہ کار ہوتا ہے۔
قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد بل کو کمیٹی کے پاس بھیجا گیا۔ کمیٹی نے بل پاس کرانے کی منظوری دیدی ۔ پیکا ایکٹ بل ترمیم کیلئے پی ٹی آئی کے دور میں پیش ہوا تھا۔ پی ٹی آئی دور میں پیکا ایکٹ میں کچھ کنفیوژن پید ا کی گئی۔
سوشل میڈیا پر جو لوگ گالیاں دے رہے ہیں ان کو لگام لگائی جائے گی۔ ہمارے ملک میں سوشل میڈیا کی کوئی حد ہی نہیں۔ پی ٹی آئی نے مذاکراتی عمل پر خودکش حملہ کیا۔ پی ٹی آئی کو فساد اور محاز آرائی سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ
26ویں آئینی ترمیم سے متعلق کیس 3ہفتے تک ملتوی کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہمارا مطالبہ تھا کہ کیس کو فل کورٹ کے سامنے رکھا جائے۔ سپریم کورٹ میں واضح تقسیم نظر آرہی ہے۔ہائی پروفائل کیسز میں ججز کی پرفارمنس پر نظر رکھی جائے گی۔
اگر معاملہ فل کورٹ تک جاتا ہے تو ایڈہاک ججز نہیں ہونے چاہئیں۔ جب تک فل کورٹ نہیں بیٹھے گا تب تک مسائل کا حل نہیں نکلے گا۔ پاکستان میں نظام انصاف سے لوگوں کا اعتبار اٹھ چکا ہے۔
جوبینچ 26ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں بنا اس کو یہ کیس سننا ہی نہیں چاہیے۔
مزید پڑھیں :سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا عمر ایوب کو فون،پی ٹی آئی نے مذاکرات میں شرکت کرنے سے دو ٹوک انکار کر دیا