اسلام آباد ( اے بی این نیوز )بلاول بھٹو نے کہا ہےن کہ ن لیگ معاہدے کی خلاف ورزی کر رہی ہے، پیپلز پارٹی اتفاق رائے پر یقین رکھتی ہے، ن لیگ پیپلز پارٹی کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کر رہی ہے، اسے وفاق سے عزت مل رہی ہے نہ سیاست۔ حکومت اپنے الفاظ سے پیچھے ہٹ رہی ہے، قانون سازی میں بھرپور مشاورت ہونی چاہیے۔
وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے 26ویں ترمیم میں مصروف ہوتے ہوئے نہروں کی منظوری دی۔ مجھے اس کی کاپی بعد میں دی گئی۔میرے خیال میں اتفاق رائے کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں، فیصلہ ہوا کہ پی ایس ڈی پی مشاورت سے بنائی جائے گی، حکومت نہروں پر جو طریقہ اپنا رہی ہے وہ درست نہیں۔
‘دنیا بھر کی حکومتیں شراکت داروں کے ساتھ معاہدوں پر عمل کرتی ہیں، ہم دیکھیں گے کہ معاہدے پر عمل درآمد کا کیا ہوا؟
بلاول بھٹو نے کہا کہ بطور پارٹی چیئرمین میری ذمہ داری ہے کہ میں سی ای سی کو زمینی حقائق سے آگاہ کروں۔ وفاقی حکومت نے آئین سازی کے عمل کے دوران برابری کی بات کی تھی لیکن اب پیچھے ہٹ گئی ہے۔ وہ احتجاجاً جوڈیشل کمیشن سے بھی نکل گئے۔انہوں نے کہا کہ میں جوڈیشل کمیشن میں ہوتا تو آئینی بنچ میں فرق کی بات کرتا۔ میں نے احتجاجاً جوڈیشل کمیشن سے اپنا نام واپس لے لیا۔ سپریم کورٹ میں دیہی سندھ کے جج ہوتے تو میں برابری کی بات کرتا۔ آئینی سربراہ چیف جسٹس کو غیر متنازعہ ہونا چاہیے۔
انصاف کے سب سے بڑے ادارے میں مساوی نمائندگی ہونی چاہیے۔ ایک ملک میں دو نظام نہیں چل سکتے۔ وفاقی آئینی بنچ کے لیے الگ اور سندھ کے لیے الگ نظام اپنایا گیا۔ سندھ کے ساتھ بار بار امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ مختلف سلوک کیا جاتا ہے۔ کچھ ججوں کا بنچ کے ساتھ سیاست کرنے کا طریقہ ہے، عوام کا سب سے زیادہ رابطہ نچلی عدالت سے ہوتا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کو چیف جسٹس سے رجوع کرنے کا کہا گیا ہے۔ ہم نچلی عدالتوں میں اصلاحات پر بات کریں گے۔
چینی شہریوں کے قتل سے متعلق سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ پورے پاکستان میں خصوصاً سندھ اور بلوچستان میں ہم مہمان نوازی کو اپنی ثقافت کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ہم دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔جن چینی شہریوں پر حملہ کیا گیا وہ نہ صرف ہمارے دوست مہمان تھے بلکہ وہ لوگ تھے جو پاکستانی عوام کو فائدہ پہنچانا چاہتے تھے، پاکستان کی معیشت کو فائدہ پہنچانا چاہتے تھے۔ اگر وہ دہشت گردی کے دردناک واقعے میں مارے جاتے ہیں تو میں اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کروں گا۔ ‘
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا خاتمہ صرف بلوچستان یا سندھ کے عوام کا مسئلہ نہیں، چینی سفیر نے کہا کہ یہ صرف چین کا مسئلہ نہیں ہے۔ دہشت گردی کے کسی بھی واقعے پر ہم سیاستدان سخت بیانات دیتے ہیں یا شہداء کے اہل خانہ سے تعزیت کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان بھی چینی شہریوں کی ہلاکت پر تعزیت کے لیے چینی سفارت خانے گئے لیکن پاکستانی عوام کا بھی مطالبہ ہے کہ کم بات کی جائے اور دیکھا جائے کہ حکومت دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کیا کرنے کو تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے عالمی نیٹ ورک کو عالمی برادری کے ساتھ مل کر بے نقاب کرنا چاہیے، اس کا مقابلہ کرنا چاہیے، نیشنل ایکشن پلان ٹو بنانے کی ضرورت ہے، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ہم بلوچستان سے وزیرستان تک دہشت گردی کا مقابلہ کریں، ہم مل کر دہشت گردوں کو شکست دیں گے۔
امریکی انتخابات، ٹرمپ کی جیت کو ہم کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمیں صرف پاکستانی عوام کے مسائل کی فکر ہے۔ جہاں تک کسی دوسرے ملک کے انتخابات کا تعلق ہے تو اسے اپنے ہی عوام اور ملک پر اثرات کے لحاظ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہم ڈیموکریٹس یا ریپبلکن دونوں کا ساتھ نہیں لیتے۔ جہاں تک ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق ہے تو ہمارے ان کے ساتھ اس وقت تعلقات تھے جب وہ صدر نہیں تھے۔ 1990 میں جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو ان کی ملاقات ڈونلڈ ٹرمپ سے ہوئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بینظیر کے لیے کھانے کا انتظام کیا تھا۔
بلاول نے کہا کہ ذاتی تعلقات اپنی جگہ ہوتے ہیں، ذاتی تعلقات سفارت کاری پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم مسائل ہیں، زمینی حقائق ہیں۔ جغرافیائی سیاست مضبوط ہے، لیکن گھریلو تعلقات اس سے زیادہ اہم ہیں۔ ذاتی شناخت کم اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہمیں زمینی حقائق کو دیکھنا چاہیے۔ اس وقت امریکہ اور پاکستان کے تعلقات اتنے اچھے نہیں ہیں جتنے ہو سکتے تھے۔انہوں نے کہا کہ جب وہ وزیر خارجہ تھے تو پاکستان کے امریکہ کے ساتھ کوئی خاص تعلقات نہیں تھے لیکن اب پاک امریکہ تعلقات مزید خراب ہیں۔ بہتر کرنا