اسلام آباد (نیوزڈیسک) آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کے جہاں سوموٹو ایکشن کے اختیارات ختم کردیئے گئے ہیں وہاں آرٹیکل 184 میں ایک اور تبدیلی بھی کی گئی ہے جو سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق ہے،
سپریم کورٹ اس شق کے تحت دائر کی گئی کسی بھی درخواست کے مندرجات سے باہر اپنے طور پر یا از خود نوٹس کے تحت کوئی حکم یا ہدایت نہیں دے سکتی۔
آئین کے آرٹیکل 185کی ترمیم
آرٹیکل 185کے کلاز (2)پیراگراف (D) میں پچاس ہزار کے الفاظ کو ایک ملین سے تبدیل کیا جائے گا۔آرٹیکل 185 کی شق 2 جو کسی عدالت عالیہ کے صادر کردہ کسی فیصلے، ڈگری، حتمی حکم یا سزا کے خلاف اپیل عدالت عظمیٰ میں دائر کرنے سے سے متعلق ہے جس میں رقم کی مالیت 50 ہزار سے تبدیل کر کے 10 لاکھ کردی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ’اگر تنازع کے موضوع کی رقم یا مالیت ابتدائی عدالت میں اور اپیل نزاع میں بھی 10 لاکھ روپے یا ایسی دوسری رقم سے، جس کی صراحت اس سلسلے میں مجلس شوری(پارلیمنٹ) کے ایکٹ کے ذریعے کی جائے، کم نہ ہو‘۔
آرٹیکل 186 اے میں تبدیلی کے تحت سپریم کورٹ کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ہائی کورٹ سے کیسز اپنے پاس ٹرانسفر کرسکتی ہے۔’اگر سپریم کورٹ یہ محسوس کرے کہ کسی کیس میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہورہے ہیں تو وہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت کیسز یا کسی درخواست کو کسی دوسرے ہائی کورٹ یا خود کو منتقل کرسکتی ہے‘۔آرٹیکل 187 کی شق ایک (سپریم کورٹ کے حکم ناموں کا اجرا اور تعمیل) سے متعلق ہے جس میں مندرجہ ذیل شق کو شامل کیا جانا ہے، ’بشرطیکہ اس شق کے تحت کوئی ایسا حکم جاری نہ کیا جائے جو سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کے خلاف ہو اور اس پر عملدرآمد نہ کیا جاتا ہو‘۔
آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار میں تبدیلی کرتے ہوئے ایک نئی شق ون اے شامل کی جائے گی، جس سے ازخود نوٹس کے اختیارات چھین لیے جائیں گے۔شق 1۔اے کے مطابق ’شک کو دور کرنے کے لیے ہائی کورٹ اپنے طور پر یا شق ون کے تحت دائر کی گئی کسی بھی درخواست کے مندرجات سے ہٹ کر اپنے از خود نوٹس کا دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے کوئی حکم یا ہدایت جاری نہیں کرے گا‘۔
عدالتی بینچوں کی تشکیل کے لئے آئین میں ایک نیا آرٹیکل 191۔اے (سپریم کورٹ کی آئینی بنچ) شامل کیا گیا ہے۔شق نمبر1 میں کہا گیا ہے ’سپریم کورٹ کے آئینی بینچ ہوں گے جن میں سپریم کورٹ کے ججز شامل ہوں گے، جن کی نامزدگی اور مدت کا تعین جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا جب کہ آئینی بینچوں میں تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے ججز کی برابر نمائندگی کو یقینی بنایا جائے گا۔
آرٹیکل 191 اے کی شق 2 اور شق 1 کے تحت نامزد ججوں میں سب سے سینئر جج آئینی بینچوں کا پریزائیڈنگ جج ہوگا۔شق 3 آئینی بینچوں کے علاوہ سپریم کورٹ کے بینچوں کو ’سپریم کورٹ کو تفویض کردہ مندرجہ ذیل دائرہ اختیارات ’ کو محدود کرتا ہے:
(الف) آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ کا اصل دائرہ اختیار؛
(ب) آرٹیکل 185 کی شق 3 کے تحت سپریم کورٹ کے اپیلیٹ دائرہ اختیار میں، جہاں آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کا کوئی فیصلہ یا حکم کسی قانون کی آئینی حیثیت یا آئین کی تشریح کے بارے میں قانون کے سوال کو شامل کرتا ہے؛(ج) آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کا مشاورتی دائرہ اختیار؛شق نمبر4 کے تحت شق 2 کے مقاصد کے لیے کم از کم 5 ججوں پر مشتمل بینچ ہو، جسے پریزائیڈنگ جج اور شق 1 کے تحت نامزد ججوں میں سے 2 سینئر ترین ججوں پر مشتمل کمیٹی نامزد کرے گی، اور یہ بینچ ایسے معاملات کی سماعت کرے گا۔
آرٹیکل 191 اے کی شق 5 کے مطابق 26ویں ترمیم کے نفاذ سے قبل سپریم کورٹ میں دائر کیے گئے فیصلوں کے خلاف تمام درخواستیں، اپیلیں یا نظرثانی کی درخواستیں، جن پر شق 2 لاگو ہوتی ہے، اب آئینی بینچوں کو منتقل کردی جائیں گی اور صرف شق 3 کے تحت تشکیل دیے گئے بینچ ان کی سماعت اور فیصلہ کریں گے۔
شق نمبر6 کے ذریعے شق نمبر1 میں نامزد ججوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ آئینی بینچوں کے طرز عمل اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قواعد وضع کرسکتے ہیں، ’چاہے آئین میں کچھ بھی موجود ہو لیکن قانون کے تابع ہو‘۔