واشنگٹن(نیوزڈیسک)مریکہ میں ببل گم کی مدد سے 44 سال پرانے قتل کے کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، امریکی پولیس نے مجرم کو گرفتار کر لیا ہے۔
15 جنوری 1980 میں 19 سالہ طالبہ باربرا ٹکر کو اغواء کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے بعد طالبہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔
باربرا ماؤنٹ ہوڈ کمیونٹی کالج کی طالبہ تھیں، جن کی لاش کالج کی پارکنگ میں موجود جھاڑیو سے ملی تھی۔
اس خوفناک قتل پر پورے علاقے میں خوف طاری تھا، تاہم ملٹنوماہ کاؤنٹی ڈسٹرکٹ کے اٹارنی آفس سے جاری بیان کے مطابق 60 سالہ رابرٹ پلیمپٹن نے گزشتہ ہفتے قتل کرنے کا اعتراف کر لیا ہے۔
مزیدپڑھیں:پتنگ کی ڈور سے بچہ جاں بحق، مریم نواز کا اظہارِ افسوس
تاہم اسے قبل رابرٹ کے خلاف ریپ، جنسی استحصال کے چارجز خارج کر دیے گئے تھے۔ ملزم کی جانب سے قصوروار نہ ٹھہرائے جانے کی استدعا کی گئی تھی۔
جبکہ وکلاء کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا، ہم اپیل دائر کریں گے اور پُر امید ہیں کہ اس کنوکشن کو ہم اوور ٹرن کر دیں گے۔
تاہم رابرٹ تب تک کسٹڈی میں ہی رہے گا، سزا کے حوالے سے سماعت جون میں شیڈول کی گئی ہے۔
اگرچہ ملزم کی جانب سے استدعا کی جاتی رہی ہے کہ وہ قصوروار نہیں ہے، تاہم پولیس کو بریک تھرو اُس وقت ملا، جب ریاست ورجینیا کی ایک ڈی این اے ٹیکنالوجی کمپنی پارابون نانولیبس کی جانب سے ڈی این اے میچز کی شناخت کی کوشش کی گئی۔
ڈی این اے کے لیے مقتول طالبہ کی لاش کے پاس موجود جھاڑیو کو بطور شواہد لیا گیا۔
اس لیب کے چیف جینیٹک جینیالوجسٹ سی سی مورے کا کہنا تھا کہ سنیپ شوٹ فینوٹائپ پریڈکشن ایک ایسا ٹیسٹ ہوتا ہے، جس میں کسی کی بھی جسمانی خصوصیات اس کے ڈی این اے کی بنا پر پریڈکٹ کی جا سکتی ہیں۔ اس ٹیسٹ کی بنا پر کئی ممکنہ صورتحال کو جانچنے کا موقع ملا۔
اس ٹیسٹ سے ایک بات سامنے آئی کہ موقع واردات کے وقت ایک ایسا شخص موجود تھا جس کے لال بال تھے، جس نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ جس نے طالبہ باربرا کا قتل کیا ہے، اس کے لال بال تھے۔
2021 میں تحقیقاتی ٹیم نے رابرٹ کے حوالے سے بھی جانچ پڑتال شروع کی اور پھر گھر کے احاطے میں رابرٹ کی پھیکی گئی ببل گم جو کہ تفتیشی ٹیم نے ممکنہ طور پر رابرٹ کی سمجھ کر بطور ڈی این اے ٹیسٹ شواہد لیا۔
حیرت انگیز طور پر رابرٹ کی معلوم ہونے والی اس ببل گم اور طالبہ کی لاش کے پاس موجود جھاڑو کے ڈی این اے ٹیسٹ میچ کر گئے، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ مجرم رابرٹ ہی ہے۔
طالبہ کی بہن سوسان پیٹر کا کہنا تھا کہ یہ ایک بہت اچھی خبر تھی کہ مجرم کی شناخت ہو گئی، میں نے ہمت توڑ دی تھی۔