اہم خبریں

آڈیولیکس انکوائری، سپریم کورٹ کے حکم پر کمیشن نے مزید کارروائی روک دی

اسلام آباد(اے بی این نیوز)آڈیو لیکس کمیشن کی کاروائی روک دی گئی۔ہم مزید کاروائی نہیں کر رہے اور آج کی کاروائی کا حکمنامہ جاری کریں گے۔اڈیو لیکس کمیشن / تحقیقات جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 3 رکنی کمیشن کا آڈیوز لیکس کی تحقیقات کیلئے دوسرا اجلاس انکوائری کمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس ہی نہیں تھا تو کام سے کیسے روک دیا۔سپریم کورٹ رولز کے مطابق فریقین کو سن کر اس کے بعد کوئی حکم جاری کیا جاتا ہے۔آپ کیوں کل کمرہ عدالت میں تھے نوٹس تھا یا ویسے بیٹھے تھے، جسٹس قاضی فائز کا اٹارنی جنرل سے استفسار،ٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے زبانی بتایا گیا تھا کہ آپ عدالت میں پیش ہوں۔۔سماعت کے بعد مجھے نوٹس جاری کیا گیا۔ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ انکوائری کمیشن ایک قانون کے تحت بنا ہے۔۔۔کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت یہ کمیشن بنایا گیا۔۔۔ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں۔۔۔انہوں نے مزید کہا کہ دوسروں کی عزت ہے تو ہماری بھی عزت ہونی چاہیے۔ زیادہ نہیں کم از کم تھوڑی بہت تو ہماری عزت ہونی چاہیے۔ ایک گواہ خواجہ طارق رحیم نے ہمیں ای میل کی۔ انہوں نے ای میل میں لکھا جب آپ خواتین کے بیانات ریکارڈ کرنے لاہور جائیں گے میں وہیں آجاؤں گا۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا طبی مسائل کے سبب اسلام آباد میں پیش نہیں ہو سکتا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکومت نے مجھے ایک ٹاسک دیا اس لیے ہم بیٹھے۔ ججز کا حلف پڑھیں، ہم آئین و قانون کے تابع ہیں۔کمیشن کا اٹارنی جنرل کو قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کی، جس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ابھی وہ اسٹیج ہی نہیں آئی تھی نہ ہم وہ کر رہے تھے۔ ایک گواہ اس وقت موجود ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عبدالقیوم صدیقی کو روسٹرم پر بلا لیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ ہمیں کئی بار بہت تکلیف دہ قسم کے ٹاسک ملتے ہیں۔ ہم وہ ٹاسک انجوائے نہیں کر رہے ہوتے مگر حلف کے تحت کرنے کے پابند ہیں۔ حلف کے تحت اس کی اجازت نہ ہوتی تو معذرت کر کے چلا گیا ہوتا۔ ہمیں کیا پڑی تھی، ہمیں اضافی کام کا کچھ نہیں ملتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سانحہ کوئٹہ کا ذکر کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس درد ناک واقعے جیسی تحقیقات کرنا پڑتی ہیں۔حلف میں لکھا ہے فرائض آئین و قانون کے تحت ادا کروں گا۔۔۔۔آڈیوز کی صداقت جانے بغیر کیا کسی کی زندگی تباہ کر دیں۔۔۔۔کس نے آڈیو ریکارڈ کی وہ بعد کی بات ہے۔۔۔۔ججوں کے خلاف ایسی درجنوں شکایات آتی ہیں کیا ٹھیک کر کے سپریم جوڈیشل کمیشن بھیج دیا کریں؟۔۔پرائیویسی ہمشہ گھر کی ہوتی ہے، کسی کے گھر میں جھانکا نہیں جاسکتا۔۔۔۔باہر سڑکوں پر جو سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں کیا یہ بھی پرائیویسی کے خلاف ہیں؟۔۔۔کیا بنک کے سی سی ٹی وی کیمرے میں قتل کی واردات آجائے تو کیا فوٹیج استعمال نہیں ہوسکتی؟۔۔۔۔کیا مجھے کوئی مرضی کے فیصلے کے لیے رقم آفر کرے تو کیا یہ گفتگو بھی پرائیویسی میں آئے گی؟شعیب شاہین روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کر وکلا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہیں،۔۔ہمیں قانون سکھانے آ گئے ہیں، کوئی بات نہیں سکھائیں ہم تو روزانہ قانون سیکھتے ہیں۔۔۔کوڈ آف کنڈکٹ کو کھڑکی سے اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا ہے۔۔۔۔شام کو ٹی وی ٹاک شو میں بیٹھتے کر باتیں کرتے ہیں۔۔۔،،آڈیولیکس انکوائری کمیشن نے اپنا موقف پیش کرنے کے بعد مزید کاروائی روک دیہم مزید کاروائی نہیں کر رہے اور آج کی کاروائی کا حکمنامہ جاری کریں گے۔

متعلقہ خبریں