اسلام آباد(نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔تفصیلات کے مطابق تفصیلی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ایک سیاسی جماعت ہے اور اس نے 2024 کے عام انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں جیتی ہیں یا حاصل کی ہیں۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ (پی ایچ سی) کا فیصلہ کالعدم ہے۔
انتخابی نشان نہ دینے سے سیاسی جماعت کے الیکشن لڑنے کا قانونی اور آئینی حق متاثر نہیں ہوتا۔ آئین یا قانون سیاسی جماعت کو انتخابات میں امیدوار کھڑا کرنے سے نہیں روکتا۔عدالت نے فیصلہ دیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے پی ٹی آئی کے 80 میں سے 39 ایم این ایز کو پی ٹی آئی قرار دیا۔
ای سی پی کو کہا گیا کہ وہ باقی 41 ایم این ایز کے دستخط شدہ بیان 15 دن میں لے۔ اسے مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مطلع کرنا چاہیے۔فیصلے میں کہا گیا کہ ای سی پی کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور یہ آئین کے منافی ہے۔ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے لیکن کمیشن فروری 2024 میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔
سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ عوام کا ووٹ جمہوری طرز حکمرانی کا اہم حصہ ہے۔ جمہوریت کی طاقت عوام کے پاس ہے اور آئین عوام کو اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنا جمہوری طریقہ اختیار کریں۔اکثریتی ججوں کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ بھاری دل کے ساتھ دو ساتھی جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان نے ہمارے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔
اس کے مطابق نہیں، ان کا یہ اقدام سپریم کورٹ کے ججز کے عہدے کے خلاف ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ بنچ کے ارکان کی حیثیت سے وہ قانونی طور پر حقائق اور قانون سے اختلاف کر سکتے ہیں۔
ساتھی جج بھی مختلف رائے دے سکتے ہیں اور دوسروں کی رائے پر تبصرہ بھی کر سکتے ہیں لیکن ججوں نے اختلاف کیسے کیا یہ سپریم کورٹ کے ججوں کی تحمل اور شائستگی ہے۔عدالت نے لکھا کہ اس سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ ججز نے اپنی رائے دیتے ہوئے حد سے تجاوز کیا اور دو ججوں نے 80 کامیاب امیدواروں کو خبردار کیا۔
مزید پڑھیں: ویمنز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: پاکستانی ٹیم فاطمہ ثناء کی قیادت میں دبئی روانہ