بچے پھول کی پنکھڑیوں کی طرح نازک ہوتے ہیں اگر ان کی بروقت اور مناسب دیکھ بھال اور پھولوں کی طرح آبیاری نہ کی جائے تو یہ بھی پھول کی طرح مرجھا جاتے ہیںبچے پھول کی پنکھڑیوں کی طرح نازک ہوتے ہیں اگر ان کی بروقت اور مناسب دیکھ بھال اور پھولوں کی طرح آبیاری نہ کی جائے تو یہ بھی پھول کی طرح مرجھا جاتے ہیں۔ آج کے والدین کو بچوں کی پرورش کے حوالے سے جن مشکلات اور مسائل کا سامناکرنا پڑرہا ہے وہ بچوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
سرکاری ہسپتالوں کے شعبہ اطفال اور ماہر امراض بچگان کے پرائیویٹ کلینکس میں مختلف بیماریوں میں مبتلا بچوں کے ساتھ والدین کا ایک ہجوم دکھائی دیتا ہے والدین کی معمولی سی غفلت بھی بچوں میں کئی بیماریوں کو جنم دے سکتی ہے۔ جن سے والدین کو نہ صرف مالی مسائل بلکہ ذہنی اور جسمانی اذیت کا بھی سامنا کرنا پڑتاہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اوائل عمری میں ظاہر ہونے والی بیماری کے اثرات کا بچے اور والدین کو تمام عمر سامناکرنا پڑتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں کئی کئی گھنٹے طویل قطاروں‘ پرائیویٹ ڈاکٹروں کی بھاری فیسوں‘ مہنگے لیبارٹری ٹیسٹوں اور ادویات سے گلوخلاصی کا واحد حل یہی ہے کہ حکومت کی جانب سے بچوں کی صحت کے حوالے سے جو بھی ہدایات اور احتیاطی تدابیر تجاویز کی جائیں ان پر بلاتاخیر عمل کیا جائے۔ جن کی ابتدا پیدائش کے فوراً بعد حفاظتی ٹیکوں سے کی جاسکتی ہے۔
گزشتہ روز ایک مقامی ہوٹل میں اس حوالے سے محکمہ صحت پنجاب‘ یونیسف‘ عالمی ادارہ صحت‘ پاکستان انسداد پولیو پروگرام ‘ منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز‘ ریگولیشنز اینڈ کوآرڈی نیشن حکومت پاکستان سماجی تنظیم گاوی اور ویکسین الائنس کے تعاون سے ایمونائزیشن میڈیا اور ینٹیشن ورکشاپ منعقد کی گئی جس کے مہمان خصوصی صوبائی وزیر صحت ڈ اکٹر جمال ناصر تھے جبکہ دیگر منتظمین میں ڈائریکٹر ہیلتھ راولپنڈی ڈ اکٹر انصر اسحاق سی ای او ڈ اکٹر اعجاز‘ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر احسان غنی ڈویژنل آفیسر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ڈاکٹر آصف سہگل‘ یونیسف ایمونائزیشن آفیسر قراۃ لعین ‘ پنجاب ہیلتھ سپیشلسٹ ڈاکٹر منظور اور شعبہ صحت سے وابستہ دیگر حکام اور اہلکار شامل تھے۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر جمال ناصر نے ورکشاپ میں شریک الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ صوبہ پنجاب میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کی شرح سب سے زیادہ ہے جو پنجاب کے شعبہ صحت میں مربوط نظام اور موثر عوامی آگاہی کی مرہون منت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اکثر والدین بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے کے حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف بچے کو متعدد بیماریوں بلکہ والدین کو مشکلات اور مالی وسائل کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ ویکسین سے بچوں کی شرح اموات میں نمایاں کمی کی جاسکتی ہے۔ ویکسین نہ کروانے کی وجہ سے بچے پولیو‘ خسرہ‘ تشنج اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں ۔ یہ بیماریاں بچوں کی معذوری کا باعث بھی بن سکتی ہیں جس سے بچائو کے لئے بچوں کو پیدائش کے بعد دو سال کے عرصے میں تمام حفاظتی ٹیکے لگوانا ضروی ہے۔ ڈ اکٹر جمال ناصر نے بتایا کہ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے لئے پنجاب کے مختلف شہروں میں ایک سو پچاس سنٹرز قائم کیے گئے ہیں ۔ بچوں کی تمام ویکسینز بیرون ملک سے منگوائی جاتی ہیں۔ ویکسین سے بچے بارہ بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اولین ترجیح یہ بھی ہے کہ نومولود بچوں کو پیدائش کے فوراً بعد ہسپتال میں ہی پہلا حفاظتی ٹیکہ لگا دیا جائے۔ ڈسٹرکٹ راولپنڈی کی دوسو بارہ یونین کونسلز میں بھی بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے لئے مراکز قائم کر دیئے گئے ہیں۔ اب یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو بلاتاخیر حفاظتی ٹیکے لگوائیں اور اگر انہیں اس حوالے سے کوئی مشکل پیش آرہی ہو یا معلومات درکار ہوں تو وہ 1166 اور 1033 پر کال کرکے مدد لے سکتے ہیں۔
بچے خائق کائنات کا ایک حسین اور انمول تحفہ ہیں۔ اس نعمت کی قدروقیمت کوئی ان والدین سے پوچھے جو اس نعمت سے محروم ہیں۔ صحت مند اور ہنستے مسکراتے بچوں کی کللکاریاں والدین کی زندگی میں رنگ بھر دیتی ہیں۔ بچے والدین کی زندگی کے آخری حصے کی امید بھی ہوتے ہیں۔ لیکن یہ امید تب ہی پوری ہوگی جب والدین بچوں کی صحت پر ابتدائی ایام سے ہی بھرپور توجہ دیں گے اور انہیں بروقت حفاظتی ٹیکے لگوائیں گے۔
