جنرل حمید گل کی بائیو گرافی کے لئے یادداشتیں ریکارڈ کر رہا تھا کہ انہوں نے بتایا کہ کس طرح سے بلوچ علیحدگی پسندوں اورآزاد پشتونستان کے سراب کا تعاقب کرنے والوں کو جان کے لالے پڑے تو انہیں وطن یاد آیا ، وہی وطن جس کی تخریب اور تباہی کے لئے انہوں نے دن رات ایک کردیاتھا ، دہشت گردی اور تخریب کا کوئی ہتھکنڈہ ایسا نہیں تھا ، جو انہوں نے اختیار نہ کیا ہو، کابل کا پشتونستان چوک جہاں سوویت کٹھ پتلی ببرک کارمل اورنجیب اللہ نے پاکستان سے نفرت کے اظہار کی خاطر آزاد پشتونستان اور نام نہاد گریٹر بلوچستان کے پرچم لہرا رکھے تھے ان کی اسی طرح سے آماجگاہ تھا،جیسے آج کل پکتیکا،پکتیا ،خوست اور قندھار کے کچھ سرحدی علاقے دہشت گردوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں ۔ یہ کہانی ستر کی دہائی میں شروع ہوئی تھی جب بھارت اورسویت یونین کے ایما پر خدا بخش مری اور عطااللہ مینگل اپنے ساتھی دہشت گردوں کو لے کر پہلے پہاڑوں پر چڑھے اور پھر سرحد پار کرکے افغانستان چلے گئے ۔ دو ایسے کرداربھی تھے ، جو بلوچ نہیں بلکہ پنجابی تھے ، ان میں سے ایک میر چاکرکے نام سے دہشت گردوں اور بھارت کے درمیان رابطہ کاری اور ٹریننگ کے لئے دہشت گردوں کو بھارت منتقل کرتے بارڈر پر پکڑا گیا، بعد ازاں ضیاء الحق کے دورحکومت میں امریکی مداخلت پر معافی نامہ لکھ کر رہائی پائی ، دونوں ہی ان دنوں صف اول کے صحافی سمجھے جاتے ہیں۔
آمدم برسر مطلب ،جب 1989ء میں سوویت افواج کے نکل جانے کے بعد افغان مجاہدین نے کابل کا کنٹرول سنبھالا تو باہمی اختلافات کے باوجود ان کااس بات پر اتفاق تھا کہ پاکستان کے دشمنوں کو معاف نہیں کیاجائے گا ۔ بلوچ دہشت گردوں کی رہائش گاہوں کا محاصرہ کرلیا گیا ، انہیں وارننگ دے دی گئی ۔جان کے لالے پڑے تو ان وطن فروشوں کو وطن یاد آیا ، وہی وطن جس کی تخریب ان کا مشن تھا ، جس بربادیوں میں یہ دشمن کے آلہ کار رہے ۔ خدابخش مری ، جسے دہشت گردی کا سرخیل کہا جاتاہے ، اس نے اپنی بیوی کے ذریعے آئی ایس آئی سے رابطہ کیا ، جس کے سربراہ اس وقت جنرل حمید گل تھے ۔ سب سے اہم یہ کہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید نے ڈی جی آئی ایس آئی کے ذریعہ سے سرنڈر کی شرط پر ان لوگوں کو عام معافی دی، ہزاروں کی تعداد میں دہشت گردوں کو سرنڈر کرنے پر واپس آنے کی سہولت دی گئی ، خیر بخش مری کو سی ون تھرٹی میں عزت واحترام سے لایا گیا ، ان لوگوں کو کوئٹہ کے قریب مری آباد میں سرکاری خرچ پر آباد کیا گیا ۔ دلچسپ امر یہ کہ خدابخش مری کو وطن واپسی پراپنے ساتھیوں سے زیادہ لڑائی کے لئے پالے گئے مرغوں کی فکر تھی ۔ ایسے وقت میں کہ جب ریاست چاہتی تو یہ سب کیڑے مکوڑوں کی طرح کچل دئےجاتے، لاشیں بھی شناخت کرناممکن نہ ہوپاتا،ریاست پاکستان نے مہربان ماں کا کردار ادا کیا اور ان بگڑے بچوں کو سدھرنے کا موقع دیا ۔بلوچی زبان کی کہاوت ہے کہ جس نے ایک پیالہ پانی پلادیا اس کا بدلہ سو سال کی غلامی ہے، لیکن خدابخش مری، عطا اللہ مینگل تو سچے بلوچ بھی نہ نکلے، انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے اس جان بخشی کا کیا صلہ دیا ؟ احسان شناسی اور احسان مندی کی عظیم بلوچ روایات کا کس طرح سے جنازہ نکالا یہ ایک شرمناک داستان ہے ۔ آج خدابخش مری کے بیٹے بی ایل اے بنا کر دہشت گردی کا بازارگرم کئے ہوئے ہیں اور عطااللہ مینگل کا بیٹاجاوید مینگل لشکر بلوچستان بناکر خون ریزی کر رہا ہے ۔جھوٹ بولتے ہیں دھوکہ دیتے ہیں جو کہتے ہیں کہ اکبر بگتی کی موت کے نتیجے میں بلوچستان میں حالات خراب ہوئے،سچ یہ ہے کہ افغانستان سے واپسی کے بعد جب انہیں ریاست نے فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچستان کی حکومت تک عطا کردی تو اس وقت ہی یہ لوگ صوبائی خزانےسے رقوم چوری کرکے اسلحہ خریدتے اورذخیرہ کرتے رہے۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ جب اسلم عرف اچھو دہشت گرد کی خدابخش کے بیٹوں ہیر بیار اوراس کے بھائی سے لڑائی ہوئی تو اس نے سوشل میڈیا پران کے خلاف ایک خط جاری کیا ، جس میں دو ٹوک الزام لگایا تھا کہ’’حکومت میں ہوتے ہوئے دہشت گردی کے لئےجو مڈی اکٹھی کی تھی اس کا حساب دیاجائے‘‘ ، اس کا مطلب صاف ظاہر ہےکہ یہ غدار ابن غدار حکومت میں ہوتے ہوئے بھی دہشت گردی کی تیاری کر رہے تھے اور موقع کی تلاش میں تھے۔
2001ء میں امریکہ کے افغانستان میں آجانے کے بعد انہیں موقع ملا اور یہ اپنی اوقات دکھانےپر آگئے۔ کتاب کی تقریب رونمائی کے دوران بھی کسی نے کہا کہ اکبر بگتی کی موت کے بعدحالات خراب ہوئے تو وزیر اعلی سرفرازبگتی نے بجا طور پر اس کی تصحیح کی کہ ’’یہ غلط بیانیہ نہ پھیلایاجائے ، اکبر بگتی ہی وہ واحد شخص تھا جس نے مریوں کے ساتھ مل کر 2002ء میں پہلا فراری کیمپ قائم کیا ۔‘‘ ان سب دہشت گردوں میں سے صرف میر ہزارخان مری تھا جوغیرت مند نکلا ، سچا بلوچ ، جو ریاست سے اپنے عہد پر قائم رہا ، جس نے اپنے کردار کو بدلا اور وطن کی خدمت کو شعار بنایا۔ بلاشبہ وہ کوئی عام عسکریت پسند نہیں تھا ، بلکہ خدابخش مری ،شیر محمد مری عرف جنرل شیروف اور میر ہزار خان مری پر مشتمل ٹرائیکا کا رکن تھا۔میر ہزارخان کی داستان حیات’’مزاحمت سے مفاہمت تک‘‘ بلا شبہ ایک متبادل بیانیہ ہے ، بلوچستان کے دشمنوں ، دہشت گردوں کے جھوٹ کا توڑ، لازم ہے کہ اس پر فلم بنائی جائے اور ترانے گائےجائیں ، لیکن اس کہانی کا ایک پہلو اور بھی ہے ، دوسرا رخ، جس کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی ، بلکہ میرہزارخان مری کی داستان کے ساتھ اسی داستان کے دوسرے حصے کو ملا کر دیکھا اور پڑھاجائے تو اس سے میر ہزار خان کی ریاست سے وفاداری کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے اور سیکھنے اور سمجھنے کے بہت سے اسباق ملتے ہیں ، جو ہماری مستقبل کی پالیسی کو طے کرنے میں معاون ہو سکتے ہیں ۔ سب سے بڑا سبق یہ کہ ہمیں سچ کی پوری بے رحمی کو برداشت کرنا ہوگا ، الفاظ کے گورکھ دھندے میں پڑکر قومی بیانیہ کو کمزور کرنا اور دہشت گردوں کو ناراض بلوچ قرار دینا کوئی دانش مندی نہیں ۔یہ دہشت گرد تھے ، دہشت گرد ہیں ، انہیں دہشت گرد سمجھ کر ہی ان سے نمٹا جاسکتا ہے ۔ ریاست نے ایک بار ماں کا کردار ادا کرکے دیکھ لیا ، انہیں معاف کرکے ، سدھرنے کا موقع دیا۔ میر ہزار خان مری کی داستان اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر کوئی راہ راست پر آنا چاہے تو ریاست نے اس کا بھرپور ساتھ دیا ، عزت دی احترام دیا ، لیکن جو اقتدار میں آکر بھی دہشت گردی کے لئے قومی خزانے میں نقب زنی کرتے رہے ، ان کے لئے اب مزید کوئی معافی نہیں ہونی چاہئے ، کسی قیمت پر نہیں ۔ یہ ریاست کی بقا اور مستقبل کا سوال ہے ، اس پر کوئی سمجھو تہ ممکن نہیں۔