(گزشتہ سےپیوستہ) غزوہ بدر کے موقع پر آپکی اہلیہ حضرت رقیہ ؓ سخت بیمار تھیں۔ ان کی تیمار داری کی وجہ سے آپؓ شریک نہ ہو سکے لیکن حضورﷺ نے آپؓ کو بدری صحابہ میں شمار کرتے ہوئے مال غنیمت میں سے حصہ عطا فرمایا۔ اسی طرح بیعت رضوان کے موقع پر مقام حدیبیہ میں حضورﷺ نے دوران بیعت اپنے ایک ہاتھ کو حضرت عثمانؓ کا ہاتھ قرار دیا۔ آپؓ کا شمار ان دس جلیل القدر صحابہ کرامؓ میں ہوتا ہے جنہیں نبی کریمﷺ نے دنیا میں جنت کی بشارت دے دی تھی۔ دو مرتبہ آپؓ کو اللہ کے رستے مین ہجرت کی سعادت نصیب ہوئی۔ ایک دفعہ آپنے اپنی اہلیہ حضرت رقیہؓ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی اور نبی کریمﷺ کے مدینہ شریف جانے کے بعد وہاں سے ہی آپ ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے۔ آپ نے پوری امت کو ایک قراتِ قرآن پر جمع کیا۔ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں شروع ہونے والے فتوحات کے سلسلے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ آپ کے دور میں طرابلس، شام، افریقہ، جزیرہ قبرص، جزیرہ روڈس، قسطنطنیہ، آرمینیا، خراسان، طبرستان اور کئی ایک مزید علاقے فتح ہوئے۔ آپ نے مدینہ پاک میں نہری نظام کو مضبوط کیا۔ سیلاب سے بچاؤ کیلئے ڈیم تعمیر کیے۔ کنویں کھدوائے۔ آپ حد درجہ شرم و حیا کرنے والے تھے۔حضرت عائشہؓ روایت فرماتی ہیں کہ ایک دن نبی کریمﷺ اپنے کاشانہ اقدس پر تشریف فرما تھے۔ آپ کی پنڈلی مبارک سے کپڑا ہٹا ہوا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ حاضر ہوئے تو آپﷺ اسی کیفیت میں رہے۔ لیکن جب حضرت عثمان ؓ آئے تو آپ نے پنڈلی کو ڈھانپ لیا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ان کے جانے کے بعد میں اس بارے میں آپﷺ سے استفسار کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ”میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں (مسلم شریف کتاب فضائل الصحابہ۔ باب فضائل عثمانؓ)۔ ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت مرہؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ آنے والے وقت کے فتنوں کا ذکر فرمارہے تھے۔
ایک شخص سر پر کپڑا ڈالے ہوئے پاس سے گزرا تو آپ نے اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ” فتنوں کے دور میں یہ شخص راہ ہدایت پر ہوگا“ حضرت مرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ حضرت عثمان غنیؓ تھے۔ حضرت مرہ ؓفرماتے ہیں کہ میں نے پھر پوچھا یا رسول اللہ کیا یہ شخص اس وقت راہ ہدایت پر ہو گا تو آپ نے فرمایا”ہاں یہی“۔ ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے حضرت عثمانؓ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ فتنوں کے دور میں اس شخص کوشہید کر دیا جائے گا۔“ حضرت عمرؓ نے قاتلانہ حملے میں زخمی ہو نے کے بعد اور اپنی شہادت سے پہلے خلیفہ کے انتخاب کیلئے چھ افراد کی کمیٹی بنائی تھی۔ ان میں حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمان بن عوف اورحضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ حضرت عمر ؓ کی شہادت کے بعد تین دنوں میں گفت و شنید اور افہام و تفہیم کے بعد حضرت عثمان بن عفانؓ کوخلیفہ سوم منتخب کیا گیا۔ منتخب ہونے کے بعدآپ نے خطبہ میں فرمایا ”یاد رکھو دنیا سراپا فریب ہے۔ دنیا کی زندگی تمہیں غلط فہمیوں میں ڈال کر شیطان کے پنجہ وساوس میں مبتلا نہ کر دے۔ فانی عمر کی مہلت کافی حد تک گزر چکی ہے نہ جانے کس وقت پیغام اجل آجائے۔ جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان سے عبرت حاصل کرو۔ اللہ نے دنیا کی مہلت اس لئے دی ہے کہ آخرت سنوار لو“ آپ نے تقریبابارہ سال تک امور خلافت سر انجام دیے۔ آخری دور میں ایک یہودی النسل عبداللہ بن سبا نے کوفہ، بصرہ اور مصر کے فسادی گروہوں کو جمع کیا اور اسلام کے خلاف ایک گہری سازش کی۔ آپؓ پر طرح طرح کے الزامات کی بوچھاڑ کی کی گئی۔ آپ نے ہر سوال کا معقول جواب دیا۔ ذوالحج کے مہینہ میں اکثر صحابہ کرام حج کی ادائیگی کیلئے مکہ شریف چلے گئے تھے۔ سازشیوں کو موقع مل گیا اور آپ کے گھر کا معاصرہ کر لیا۔ چالیس دنوں تک آپ اور آپ کے اہل خانہ کو بھوکہ پیاسا رکھا گیا۔ ساتھیوں نے مقابلے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا کہ”میں اپنے نبی کے شہر کو خون سے رنگین نہیں کرنا چاہتا“ آپ نے تمام مصائب و آلام کے با وجود حضورﷺ کی وصیت کے مطابق خلعت خلافت نہیں اتاری۔ اس طرح بروز جمعۃ المبارک بمطابق 18 ذو الحج 35 ہجری میں کئی دنوں کے بھوکے پیاسے، انتہائی درد ناک انداز میں آپ کو شہید کر دیا گیا۔ آپ کی قبر مبارک جنت البقیع میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے (آمین)