اہم خبریں

شہید نظام الدین شامزی! ریاست پاکستان سے سوال؟

30مئی منگل کے دن فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد میں ان کے مرقد مبارک پہ کھڑا سوچ رہا تھا کہ 19سال بیت گئے ان کی شہادت کو، ان 19سالوں میں حضرت بہت مرتبہ یاد آئے، و ہ ایک متبحر عالم دین، بلند پایہ شیخ الحدیث صوفی باصفا، سینکڑوں علماء و مفتیان کے استاد، انتہائی نرم خو، متحمل مزاج، مدبر، صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے کی سیاسی صورتحال پہ گہری نظر رکھنے والے، افغانستان، کشمیر، برما، فلسطین غرضیکہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا دم بھرنے والے، افغانستان کے محاذوں پر داد شجاعت دینے والے، مجاہدین کے روحانی پیشوا، حضرت اقدس مفتی نظام الدین شامزی شہید کہ جن کی شہادت سے پیدا ہونے والا خلاء آج 19سال بعد بھی پر نہیں ہوسکا، مفتی نظام الدین شامزی شہید دین اسلام کی حاکمیت کا نہ صرف یہ کہ واضح تصور رکھتے تھے بلکہ وہ تادم شہادت نفاذ اسلام کی ’’حاکمیت‘‘ کے لئے کوشاں بھی رہے۔ وہ افلاطونی جمہوریت کو نفاذ اسلام کے راستے میں بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے، وہ مولانا فضل الرحمن کو بہت عزیز اور مولانا فضل الرحمن ان کو بہت پیارے تھے۔ غالباً وہ جمعیت علماء اسلام کی شوریٰ کے رکن بھی رہے، لیکن اس سب کے باوجود وہ مغربی جمہوریت نہیں، بلکہ نظام اسلام کو حاکم دیکھنا چاہتے تھے، حضرت اقدس مفتی نظام الدین شامزی شہید کا احترام صرف مسلک دیو بند ہی نہیں بلکہ وہ تمام مسالک اور سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنان میں یکساں ’’محترم‘‘ تصور کئے جاتے تھے۔

اس خاکسار کا ان سے بہت ہی نیاز مدانہ تعلق رہا، ان کی شفقتیں اور محبتیں اس خاکسار کی زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ ہیں، نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے اپنے غلام ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو حضرت اقدس مفتی نظام الدین امریکہ کی اس بدمعاشی اور دہشت گردی پر سخت دلگرفتہ تھے، آپ امریکی استعمار کا علاج جہاد ہی کے ذریعے ممکن سمجھتے تھے، افغان طالبان اور کشمیر کے مسلمانوں سے ان کی ہمدردیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھیں، وہ عالم اسلام کے عظیم دینی مدرسے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹائون کے شیخ الحدیث اور سالار قافلہ حق حضرت مفتی احمد الرحمن نوراللہ مرقدہ کے جانشین بھی تھے۔75 سال قبل تحریک پاکستان کے جلسوں اور جلوسوں میںپاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الااللہ کا نعرہ لگانے والوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ پاکستان کی سرزمین کو علماء و مشائخ اور مذہب پسندوں کے خون سے سیراب کیا جائے گا، میں کسی اور کے کندھے پہ بوجھ ڈالنے کی بجائے آج ایک سوال براہ راست اپنی ’’ریاست‘‘ سے کرنا چاہوں گا۔ ریاست تو ’’ماں‘‘ جیسی ہوا کرتی ہے، پھر مفتی نظام الدین شامزیؒ، مفتی محمد جمیل خانؒ، مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ، مولانا سعید جلال پوری، مولانا حسن جان، مولانا اعظم طارق اور ان جیسے دو، چار، دس نہیں بلکہ سینکڑوں علماء و مشائخ اور مذہبی کارکنوں کا لہو کس نے بہایا؟ شہید اسلام مولانا ڈاکٹر عادل خانؒ کو کراچی کی انسانوں سے بھری سڑک پر گولیوں سے چھلنی کروانے والے کون لوگ تھے؟ یہ وہ علماء تھے کہ جن کے پاس پاکستانیوں کے لئے دین اور محبتوں کے سوا کچھ نہ تھا، یہ دھرتی کے وہ بیٹے تھے کہ جن پہ دھرتی کو بھی ناز تھا، یہ جید علماء پاکستان کو مضبوط دیکھنا چاہتے تھے، اس کی معیشت کو مستحکم دیکھنا چاہتے تھے، یہ اکابر علماء پاکستانی قوم کے محسن تھے، انہوں نے قوم کے ہزاروں بچوں کو دین کا عالم اور مفتی بنایا، قوم کے بچوں کو مفت پڑھایا، پاکستان کے شہر، شہر، گائوں، گائوں میں علم کی شمعوں کو روشن کیا، یہ وہ علماء تھے کہ جو انسان کو انسان کی غلامی سے نکال کر ایک پروردگار کے سامنے سرجھکانے کے قائل تھے، یہ وہ علماء تھے کہ جن سے جامعات والے، محلے والے، علاقے، شہر اور صوبے والے حتیٰ کہ پاکستان بھر کے کروڑوں عوام خوش تھے۔ سچائی، حق گوئی و بے باکی، انسانوں سے محبت، انسان نوازی، دلربائی، بہادری، جانثاری و جاں سپاری، رسول رحمتﷺ سے والہانہ محبت، ان کے دین پہ مر مٹنے کا جذبہ جن کا خاصا تھا۔ اے میری پیاری ریاست پاکستان! علم کی شمعیں روشن کرنے کے جرم میں، دین کی تعلیمات کو عام کرنے کے جرم میں سڑکوں، چوکوں اور چوراہوں پر جو گولیوں سے چھلنی کر دئیے گئے، بتا ذرا! ان کے قاتل کہاں ہیں؟ ان کو شہید کروانے والے کون لوگ تھے؟ اے ریاست پاکستان! ان اکابر شہید علماء کے آج بھی پاکستان کے طول و عرض میں لاکھوں، کروڑوں محبت کرنے والے رہتے ہیں وہ اپنے ان پیارے بزرگ علماء کے خون ناحق بہانے پر دلگرفتہ ضرور ہیں مگر وہ سارے آج بھی ریاست پاکستان کے وفادار ہیں، وہ پاکستان کی حفاظت کے لئے جانیں ق…

متعلقہ خبریں