اہم خبریں

ڈاکٹر قدیر خان اور ایٹمی دھماکے

1974ء میں پوکھران میں بھارت نے اپنا ایٹمی دھماکہ کیاتھا۔ جس کی بھارت نواز لابی نے بڑی واہ واہ کی تھی جبکہ مغربی ممالک نے اس دھماکے کی مذمت کی تھی اور معمولی قسم کی اقتصادی پابندی عائد کردی تھیں۔ یہ وہ زمانہ جب بھٹو صاحب پاکستان کے وزیراعظم تھے ۔ انہوں نے جہاں بھارت کی جانب سے اس ایٹمی دھماکے کی مذمت کی ‘ وہیں انہوں نے ملتان میں ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیاتھا کہ پاکستان بھی ایٹم بم بنائے گا چاہے ہمیں گھاس کھانی پڑے‘‘۔ بھٹو مرحوم کی یہ خواہش ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے پوری کردی۔ انہوں نے ہالینڈ سے بھٹو مرحوم کوخط لکھاکہ’’ اگر انہیں موقع دیاجائے تو وہ ایٹمی بم بناسکتے ہیں اور پاکستان کو بھارت کی جارحیت سے ہمیشہ کے لئے محفوظ رکھ سکتے ہیں‘ بھٹو مرحوم نے جب یہ خط پڑھا تو وہ بہت متاثر ہوئے‘ انہوں نے فوراً خط کے جواب میں ڈاکٹرقدیر خان کواسلام آباد طلب کرلیا بھٹو مرحوم اور ڈاکٹر قدیر خان کے درمیان ملاقات میں بڑی تفصیل سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بحث ہوئی جس کے بعد بھٹو مرحوم نے ڈاکٹر قدیر خان کو ایٹمی پروگرام کا آغازکرنے کی اجازت دیدی۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ یہ پرو گرام انتہائی راز میں رکھاجائے گا۔ جبکہ ڈاکٹر قدیر خان کے معاملات میں کسی کی جانب سے مداخلت نہیں کی جائے گی‘ یعنی وہ ایٹمی پروگرام کو پائے تکمیل تک پہنچانے میں ہرلحاظ سے آزاد ہونگے۔
چنانچہ یہ پروگرام شروع کیا گیا۔ کہوٹہ میں ڈاکٹر قدیر خان نے اپنے ساتھ بہترین سائنسدانوں کو شامل کیا تاکہ ان کی مدد ومعاونت سے اس کا م کو بڑی سرعت کے ساتھ مکمل کیاجاسکے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا حالانکہ بعض دشمن ممالک کی جانب سے کہوٹہ پرحملہ کرنے کی منصوبہ بندی بھی کی گئی۔لیکن پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں نے اس کو ناکام بنادیا ۔ چنانچہ 28مئی 1998ء کا وہ دن بھی آگیا جب چاغی میں پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کرکے پوری دنیا کے علاوہ بھارت کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان کے پاس بھی اب ایٹمی ہتھیار موجود ہیں‘ اگر کسی نے پاکستان پر حملہ کیاتو اس کا جواب ان ایٹمی ہتھیاروں سے دیاجائے گا۔ تاہم یہاں یہ بات لکھنا ضروری ہے کہ نوازشریف جو اس وقت پاکستان کے وزیراعظم ایٹمی دھماکہ کرنے میں پس وپیش کامظاہرہ کررہے تھے۔ اور قوم کو یہ تاثر دے رہے تھے کہ ان پر بعض بیرونی ممالک کی طرف سے خصوصیت کے ساتھ امریکہ کی جانب سے سخت دبائو کا سامناہے۔ اس طرح تقریباً 17دن گزر گئے اور دھماکہ نہیں کیا گیا۔ لیکن جب پاکستان کے جرنیلوں نے ان پر دبائو ڈلا تو وہ دھماکے کے لئے تیارہوگئے‘ اس کے علاوہ سینئر صحافی مجید نظامی نے بھی انہیں وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ کہ ’’اگر تم نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو عوام تمہارا دھماکہ کر دیںگے۔‘‘ چنانچہ ایٹمی دھماکہ ہوا جس کا سہرا ڈاکٹر قدیر ‘بھٹو مرحوم اورغلام اسحق خان کو جاتاہے جنہوں نے ایٹمی پروگرام کی تکمیل کیلئے خزانے کے منہ کھول دیئے تھے۔ ضیاء الحق مرحوم کے کردار کوبھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ چنانچہ آج جبکہ پاکستان دنیا کی سات ایٹمی طاقتوں میں شامل ہوچکاہے‘ ہمیں ڈاکٹر قدیر اور ان کے ساتھی سائنسدانوں کی خدمات کو فراموش نہیں کرناچاہیے جنہوں نے شب وروز محنت کرکے پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت بنادیاہے۔ تاہم بعض عاقبت نااندیش عناصر نے ڈاکٹر قدیر کو بدنام کرنے کی کوشش کی اور عوام کی نگاہوں میں انہیں بے توقیر کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی لیکن یہ عناصر اپنی سازشوں میں کامیاب نہیں ہوسکے‘ آج بھی پاکستان سمیت ساری دنیا ڈاکٹر قدیر خان کو پاکستان کے ایٹم بم کاخالق قرار دیتی ہے بلکہ عوام انہیں محسن پاکستان کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ 28مئی کے یادگار دن کے موقع پر جو بھی پروگرام ہوئے ان میں ڈاکٹر قدیر اور بھٹو مرحوم کا ذکر کم ہوا ہے‘ اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ نوازشریف نے دھماکہ کرکے ایک بہت بڑا قدم اٹھایا تھا‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے پاکستان کے جرنیلوں نے ان پر دبائو ڈال کر یہ کام کرایاتھا۔ ورنہ وہ اس ضمن میں ٹال مٹول سے کام لے کرایٹمی دھماکے کو موخر کرناچاہتے تھے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کاکرم ہے کہ آج پاکستان ایٹمی طاقت ہے۔ لیکن اب ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط بنائیں۔ کیونکہ اقتصادی ترقی کے بغیر پاکستان کبھی بھی مستحکم نہیں ہوسکتاہے۔ اس ناقابل تردید حقیقت سے سب واقف ہیں ۔ بقول احمد فراز شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا

متعلقہ خبریں