(گزشتہ سےپیوستہ) 1965 میں آزاد کشمیر کے علاقے تراڑ کھل میں پیدا ہونے والے مولانا عبد الوحید کی انسانوں کے لئے تعلیمی اور رفاہی خدمات اس ’’کمال‘‘ کو پہنچیں کہ کراچی کے ممتاز صنعت کار اور سی ٹریڈ رز گروپ کے چیئرمین مجیب بالا گم بالا کو اپنے خطاب میں حسرت بھرے انداز میں کہنا پڑا کہ’’کا ش مجھ سے ساری د ولت لے لی جائے اور میں بدلے میں مولانا عبد الوحید بن جائوں‘‘ یعنی بقول شاعر۔ ہم خود تراشتے ہیں منزل کے سنگ راہ ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
شیخ الحدیث مولانا شفیق الرحمن نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’انسان اپنی ذات کے اعتبار سے قیمتی نہیں ہوتا‘بلکہ اپنی صفات اور کمالات کے اعتبار سے قیمتی ہوتا ہے‘ذات کے اعتبار سے تو مسلمان اور غیر مسلم سب برابر ہیں‘ سب کے پاس دو ہاتھ ‘ دو پائوں اور دو آنکھیں ہیں…لیکن صفات کے اعتبار سے ’’ولعبد مومن خیر من مشرکہ‘‘ ایک ایمان والا سارے کافروں سے بہتر ہے‘ مولانا نے کہا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ دبلے پتلے جسم کے مالک تھے‘ نحیف اور کمزور تھے ایک مرتبہ ایک صحابی نے آپ کو جب دیکھا تو وہ مسکرا دیئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم کیوں ہنسے ہو؟ یارسول اللہﷺ ‘ عبد اللہ بن مسعود ؓکی دبلی پتلی پنڈلیاں دیکھ کر مجھے ہنسی آگئی‘ آپﷺ نے فرمایا ایسا مت کرو‘ اس لئے کہ قیامت میں جب وزن ہوگا تو عبد اللہ بن مسعود ؓ کا یہ د بلا پتلا جسم احد پہاڑ سے زیادہ وزنی ہوگا یقینا یہ وزن صفات کا ہے ان کی ذات کا نہیں۔ حضرت سالمؓ ایک آزاد کردہ غلام تھے مگر ماشا اللہ قرآن مجید اتنا خوبصورت پڑھتے تھے کہ آپﷺ نے انہیں دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ جس نے قرآن مجید سیکھنا ہو حضرت سالمؓ سے سیکھ لیے اور مسجد قبا تاریخ اسلام کی سب سے پہلے مسجد ہے اس کے آئمہ میں ایک امام حضرت سالم ؓبھی تھے اور مقتدیوں میں حضرت عمرؓ بن خطاب جیسے جلیل القدر صحابہ کرام ؓتھے۔ حضرت عطا بن ابی رباحؒ یہ بھی ایک آزاد کردوہ غلام تھے بلکہ حضرت کے سوانح حیات میں یہ بات ملتی ہے کہ ان کے جسم میں کچھ ایسے عیوب پائے جاتے تھے مثال کے طو پر وہ سیاہ کالے تھے’ بھینگے تھے‘لنگڑے تھے‘ ایک بازو بھی ان کا متاثر تھا‘ان کی ناک چھپٹی ہوئی تھی جیسے لوبیا کا دانہ ہوتا ہے اور زندگی کے آخری حصہ میں نابینا بھی ہوگئے تھے خود سوچئے کہ جس بندے میں یہ پانچ چھ عیوب پائے جاتے ہوں تو ایسا آدمی کیسا لگے گا ‘مگر امام اعظم ابو حنیفہؒ کے بڑے اساتذہ کرام میں ایک استاد حضرت عطا بن ابی رباحؒ بھی تھے یہ مقام ان کو اپنے صفات کے اعتبار سے ملا ‘کمالات کے اعتبار سے ملا‘ذات کے اعتبار سے نہیں۔آج الحمد للہ ہماری درسگاہوں میں امام ابو حنیفہؒ‘امام شافعیؒ‘ امام مالکؒ‘ امام احمد بن حنبلؒ اور امام بخاریؒ‘ امام مسلمؒ‘ امام ترمذیؒ یہ سارے وہ اکابرین ہیں کہ ان کا نام آتا ہے تو بے ساختہ زبانوں پر’’رحمتہ اللہ‘‘ کہنا پڑتا ہے‘یہ سب اپنے صفات اور کمالات کے اعتبار سے ہے‘ذات کے اعتبار سے تو بہت دنیا گزری ہم ان کے نام بھی نہیں جانتے نہ ہمیں ان کاکچھ پتہ ہے، مولانا نے کہا، جیسے ہر انسان اپنی صفات کے اعتبار سے قیمتی ہوتا ہے اور صفات پھر دو قسم کی ہیں-1 اچھی صفات-2 بری صفات۔ کوئی آدمی اپنے اندر بری صفات چاہے تو اس کے لئے اسی کو کسی قسم کی محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ‘ میں چاہتاہوں کہ یہ جگہ گندی رہے تو مجھے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں،اور میں اس کو چھوڑ دوں یہ خود ہی گندی ہو جائے گی‘میں چاہتاہوں کہ میرا بیٹا جاہل بن جائے تو اس کے لئے کوئی کالج‘ یونیورسٹی‘ مدرسہ نہیں کھلا ہوا‘ بس وہ گھر میں پڑا رہے اور بس ویسے ہی وہ جاہل ہی ہوگا‘لیکن اگر میں یہ چاہتا ہوں کہ میں اس جگہ کو صاف رکھوں اور اپنے بیٹے کو اچھے علم و فنون کی تعلیم دوں تو اس کے لئے زبردست محنت کرنا پڑتی ہے گویا اچھی صفات پیدا کرنے کے لئے محنتی کرنی پڑتی ہے‘ اب محنت میں ہر آدمی کا اپنا دائرہ کار ہے کہ کس کی ترجیحات کیاہے ہمارے ہر دل عزیز صالح عالم دین مولانا عبد الوحید نے اپنی تعلیمی سرگرمیوں سے فراغت کے بعد اپنی ترجیحات میں اور اپنے لئے میدان محنت جس چیز کو بنایا اور جن صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کو تر جیح دی‘ آج اسی کا نتیجہ ہے….کہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے دین اور انسانوں کی خدمت کا کام لے رہے ہیں،قاری الیاس صاحب گزشتہ تقریباً25سال سے ادارے میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں…وہ مولانا عبد الوحید کی سادہ مزاجی،دیانتداری عاجزی و انکساری بالخصوص قوم کے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ کے عینی شاہد بھی ہیں،وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے آپ کا کوئی بڑا تعلیمی ماہر،سمجھنے کی بجائے .میشہ خادم قرآن سمجھا،لوگوں کی امانتیں نہایت امانت و دیانت کے ساتھ ان کے اصل حق داروں تک پہنچائیں ،ادارے کے تعلیمی ،تدریسی اور تربیتی معیار کو ہمیشہ سر بلند رکھا۔
