(گزشتہ سے پیوستہ) قومی تشخص کے حوالے سے چینی بہت حساس ہیں۔ان میں وطن پرستی اورقوم پرستی نمایاں ہے۔ اس بات سے وہ بہت خوش ہیں کہ ملک آگے بڑھ رہاہے اوریہ کہ اب انہیں بھی آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔یہ بات قابلِ غورہے کہ بیشتر چینیوں کوچینی ہونے پرفخرہے۔ایک دورتھاکہ سب مغرب کی طرف دیکھتے تھے اور اس سے غیرمعمولی حدتک متاثرہوتے تھے۔اب ایسانہیں ہے۔ بہت سے چینیوں نے امریکااور یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعدوطن واپس آکرقومی ترقی میں اپناکردارادا کرنے کوترجیح دی ہے۔ جیمزنی کے پاس امریکامیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع تھامگراس نے ملک میں رہناقبول کیااورآج کروڑ پتی ہے۔ہواییجیااوینچرسرمایہ دارہے اور چاہتا ہے کہ اس کا8سالہ بیٹاچینی ہونے پر فخر کرے۔ ہواییجیاکاکہناہے میں چاہتاہوں میرے بیٹے کو معلوم ہوکہ ہماری زبان بہت خوبصورت ہے اوریہ کہ ہماری کئی نسلوں نے بہت کچھ سہاہے ۔بہت کچھ سہنے کے بعداب اس بات کی گنجائش پیداہوئی ہے کہ چینیوں کی نئی نسل کچھ حاصل کرے،کچھ کرکے دکھائے۔ بہت سے تجزیہ کاروں اورمغربی سفارت کاروں کواب یقین ہوچلاہے کہ جوکچھ انہوں نے چین کے حوالے سے سوچاتھاوہ غلط ثابت ہوا ہے۔ بیجنگ سے تعلق رکھنے والے تاریخ دان اور مصنف شوژیوآن کے مطابق چینی ذہنیت مجموعی طور پربہت عمل پسند ہے۔ بہت چھوٹی عمر سے باور کرایا جاتا ہے کہ مثالی زندگی بسرکرنی ہے،کسی بھی معاملے میں غیرضروری طورپراختلافات سے گریزکرناہے اورجتنی بھی ترقی کرنی ہے سسٹم کے اندررہتے ہوئے کرنی ہے۔پورامعاشرہ مسابقت کا میدان ہے۔سبھی کو مسابقت کا سامنا ہے۔آگے بڑھنے کیلئے محنت کیے بغیرچارہ نہیں۔
چین میں حرکت پذیری کے حوالے سے تعلیم کابنیادی کردارہے۔میرٹ کی بنیاد پر کالجوں میں داخلہ ملتاہے اورداخلے کے امتحان میں کامیابی کامطلب بہترزندگی ہی نہیں بلکہ ملک کی بڑی جامعات میں داخل ہونے کاموقع بھی ہے۔ جو طلبا بڑی جامعات میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں وہ جب گرمیوں کی تعطیلات میں گھرواپس آتے ہیں تواپنے تجربات کھل کر بیان کرتے ہیں جواسکول کی سطح کے بچوں کو بہتر زندگی کی طرف بڑھنے کی تحریک دیتا ہے۔ چین میں اعلی تعلیم کیلئے داخلے کے امتحان کو ’’گاؤکاؤ‘‘ کہا جاتاہے ۔ حکومت گاؤکاؤکوسماجی حرکت پذیری کنٹرول کرنے کے آلے کے طور پر بھی بروئے کارلاتی ہے۔ملک بھرکی جامعات میں داخلے کیلئے اس امتحان میں کامیابی لازم ہے۔ داخلے اس ترتیب سے دیے جاتے ہیں کہ کسی ایک صوبے یاعلاقے پرزیادہ بوجھ مرتب نہ ہو۔ آبادی کومتوازن رکھنے کیلئے گاؤکاؤکواس طور بروئے کارلایاجاتاہے کہ کہیں بھی آبادی کا توازن نہ بگڑے اورسماجی سطح پربگاڑزیادہ نہ ہو۔ اسکالرزکہتے ہیں کہ معاملات کو احسن طریقے سے چلانے کا یہ طریقہ دراصل1300سال تک سرکاری حکام اوردیگرملازمین کے انتخاب کیلئے اپنائے جانے والے کنفیوشین نظام ’’کیجو‘‘سے اخذ کیا گیا ہے۔خاندانی بادشاہت کے ادوارمیں بھی سرکاری مشینری کے پرزوں کاانتخاب خالص میرٹ کی بنیادپرکیا جاتاتھاتاکہ حکومتی امور کو چلانے کیلئے بہترین افرادی قوت میسرہو۔تب ایک فیصدسے زائدامیدوارکامیاب نہیں ہوپاتے تھے کیونکہ امتحان کیلئے بہت تیاری کرناپڑتی تھی اور بہت سوں کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہوتے تھے۔فی زمانہ گاؤکاؤکانظام اپنایاگیاہے جس میں بدعنوانی کی گنجائش بہت کم ہے۔ایسے میں اگرکوئی داخلے کے امتحان میں ناکام بھی ہو جائے توحکومت یاسسٹم کوموردِ الزام ٹھہرایانہیں جاتا۔ امریکاکی یونیورسٹی آف کنساس میں تعلیم کے پروفیسر یانگ ژی کہتے ہیں کہ چینی حکومت کے گورننگ کاایک بہت اچھا طریقہ یہ ہے کہ داخلے کے امتحان میں ناکام ہونے والوں سے کہاجاتاہے کہ آپ لوگ اس لیے ناکام ہوئے کہ خاطرخواہ محنت نہیں کی تھی۔ گاؤکاؤ1952ء میں شروع کیا گیا تھا۔ ابتدامیں کمیونسٹ پس منظرکے حامل طلبہ کوترجیح دی جاتی تھی۔بعدمیں خرابیاں پیداہوئیں۔ پھر ایک دورایسابھی آیاکہ ثقافتی انقلاب کے نام پر اساتذہ کوماراپیٹاگیااوراسکول تباہ کردیے گئے۔ مائوزے تنگ کے انتقال کے بعد 1977میں گائو کائو کوبحال کیاگیا۔یوں اعلی تعلیم کے اداروں میں داخلے کے حوالے سے بدعنوانی کاخاتمہ ہوا اور نئی نسل کواپنی صلاحیتیں آزمانے کابھرپورموقع ملا۔ اس سارے مضمون کاارض وطن کے نظام تعلیم سے تقابلی جائزہ لیتے ہیں۔ہماراہرحکمران چین سے دوستی کوہ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں کہ تہہ سے گہراضرورقراردیتاہے لیکن کیاان کے قول ان کے فعل سے مطابقت رکھتے ہیں؟یقینایہ سوچ کربھی ندامت سے سرجھک جاتاہے کہ ہم سے ایک سال بعدآزادی حاصل کرنے والاملک جواپنی روایات کے ساتھ دنیا میں کس فتح مندی سے آگے بڑھ رہاہے اورہم ہرمیدان میں’’ بھیک منگے‘‘ بنادیئے گئے ہیں۔ہمارے ہاں آج بھی بیک وقت تعلیم کے کئی نظام جاری وساری ہیں اوریہ کہتے ہوئے سخت شرمندگی ہورہی ہے کہ صرف’’بیکن ہاؤس‘‘کے نظام تعلیم نے حکومتی احکام کے ہوامیں پرزے اڑا دیئے ہیں۔پچھلی تین حکومتوں نے سارے ملک میں یکساں نظام تعلیم کے بلندوبانگ نعرے توضروربلندکئے اوراس نعرے کی آڑمیں کرپشن کے حیرت انگیزریکارڈبھی قائم کئے لیکن ہم اپنے پڑوسی دوست چین کی ترقی سے کچھ سبق حاصل نہ کرسکے۔
