عمران خان اور اہم ساتھیوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت دو مقدمے، 2 سال سے عمر قید، سزائے موت تک ہو سکتی ہےO آرمی ایکٹ کے تحت سول باشندوں کو سزائیں دی جا سکتی ہیں، قانونی ماہرینO توہین پارلیمنٹ ایکٹ منظور،6 ماہ قید،10 لاکھ جرمانہ کی سزا، 24 رکنی پارلیمانی کمیٹی کسی بھی شخص کو (ججوں سمیت) بلا سکے گیO آرمی ایکٹ کی سزائیں ہائی کورٹ، سپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہیںO شیریں مزاری، فلک ناز، ہائی کورٹ نے رہا کر دیا، پولیس نے پھر گرفتار کر لیا، عدالت نے پھر رہا کر دیا، فواد چودھری رہاO لاہور: یاسمین راشد پولیس لائنز ہسپتال میںO نائلہ کیانی نے بلند ترین چوٹی ’’مائونٹ ٹوسے‘‘ بھی سر کر لیO قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس، 9 مئی کے واقعات کے مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہO لاہور: روٹی، 20 سے 30 روپے تک بکنے لگیO عمران خان اور بشریٰ بیگم کی آج نیب کے حضور طلبی، 23 مئی کو الیکشن کمیشن نے طلب کر لیاO فوج کے خلاف واقعات شرم ناک اور قابل مذمت ہیں، سزا ملنی چاہئے: فواد چودھریO انسداد دہشت گردی عدالت، فرخ حبیب، محمود الرشید، فواد چودھری، عبوری ضمانتیں مستردO پرویزالٰہی: پنجاب کے وزیراعلیٰ کے خلاف توہین عدالت مقدمہ کا مطالبہO ملک میں ایمرجنسی کا کوئی امکان نہیں: خواجہ آصفO شعیب ہاشمی کی تدفینO نادرا، 9 مئی، فوجی تنصیبات پر حملہ کے 166 سے84 ملزم شناخت ہو گئےO چودھری اعتزاز احسن: ’’موجودہ چیف جسٹس کے رہنے سے پی ڈی ایم کو موت دکھائی دیتی ہے، یہ لوگ اپنے حق میں فیصلوں پر تالیاں بجاتے تھے، ان کے لئے چیف جسٹس نے آدھی رات کو عدالت لگائی‘‘ O 28 مئی، ایٹم بم دھماکہ، مینار پاکستان پر یوم تکبیر منایا جائے گاO گندم سمگلنگ، میانوالی ڈسٹرکٹ فوڈ افسر معطلO کراچی:9 مئی، کروڑوں کا نقصان ہوا۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ۔
٭ …ملک میں سیاسی ہیجان اور اضطراب بڑھتا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کے 5000 سے زیادہ عہدیدار اور ارکان گرفتار ہو چکے ہیں، مزید چھاپے مارے جا رہے ہیں، متعدد ارکان و عہدیداروں کی عدالتوں میں عدم حاضری کے باعث عبوری ضمانتیں منسوخ ہو چکی ہیں۔ کور کمانڈرز کے اجلاس کے بعد قومی سلامتی کمیٹی نے بھی 9 مئی کے ہنگاموں کے ملزموں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت سخت کارروائی کی قرارداد منظور کر لی۔ عمران خان اور اس کے مرکزی ساتھیوں فواد چودھری، اسد عمر، حماد اظہر، سرفراز چیمہ، شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد، مراد سعید، محمود الرشید سمیت 50 دوسرے معلوم اور نامعلوم افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت دو مقدمے درج کئے گئے ہیں ان میں ملکی سلامتی کے خلاف سازش، بغاوت، فوج کو بدنام کرنے، گالیاں دینے اور فوجی عمارتوں و تنصیبات پر حملوں اور توڑ پھوڑ کے سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ ان مقدمات میں دو سال سے عمر قید کے علاوہ سزائے موت بھی دی جا سکتی ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں، آرمی ایکٹ کیا ہے۔ ٭ …1947ء میں قیام پاکستان کے بعد مسلح افواج کی تقسیم میں بھارت نے بہت گھپلا کیا، پاکستان کی فوج نئے سرے پر قائم کی جانی تھی۔ عارضی طور پر بھارت اور پاکستان میں مسلح افواج کے انگریز سربراہ برقرار رہے۔ پاکستان کی فوج تو قائم ہو گئی مگر بھارت نے اسلحہ اور توپیں، گاڑیاں، طیارے روک لئے۔ پاکستان کی فوج کو مالی وسائل کی شدید کمی کے ساتھ اہم فرائض انجام دینے پڑے، ملک کی سرحدیں کھلی پڑی تھیں۔ لاکھوں مہاجرین کو بھارت سے بحفاظت لانے کا کام ہی بہت کٹھن تھا۔ بھارت کے رہنما پاکستان کو بھارت میں واپس شامل کرنے کے اعلانات کر رہے تھے۔ بھارتی جاسوسوں نے پاکستانی فوج میں بددلی اور بغاوت پیدا کرنے کی سازشیں شروع کر دیں۔ ملک کا کوئی آئین موجود نہیں تھا۔ 1952ء میں پاکستان کی اسمبلی نے پاکستان آرمی ایکٹ منظور کیا اس کے تحت فوج میں بغاوت وغیرہ کے مجرموں کے خلاف تعزیری کارروائی مطلوب تھی۔ اس قانون میں بعد میں مختلف ترامیم ہوتی رہیں۔ ملک میں دھماکے اور فرقہ ورانہ فسادات نے زور پکڑ لیا تو 2017ء میں آخری بار آرمی ایکٹ میں ترامیم کی گئیں یہ اسی حالت میں اس وقت بھی نافذ ہے! اس کے تحت متعدد افراد کو مختلف سزائیں سنائی جا چکی ہیں ان میں بھارتی جاسوس کل بھوشن کو سزائے موت بھی شامل ہے، جو عالمی عدالت کی مداخلت کے باعث تاحال زیر عمل نہیں لائی جا سکی۔ ٭ …آرمی ایکٹ متعدد دفعات پر شامل ہے۔ اس کے تحت فوج کے اندر کسی سازش کے مجرموں کے خلاف فوجی عدالتیں براہ راست کارروائی کرتی ہیں۔ ایسے مقدمات دائر کرنے اور ان کی پیروی کے لئے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کی طرح باقاعدہ جج ایجوٹنٹ جنرل کا شعبہ قائم ہے اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ قانون دان کام کرتے ہیں۔ کسی مقدمہ کی سماعت جرنیل سے لے کر کم از کم میجر رینک کے افسروں کی زیرقیادت کی جاتی ہے۔ عام طور پر لیفٹیننٹ کرنل کے عہدہ کا افسر عدالت کا سربراہ ہوتا ہے۔ ابتدا میں فوجی عدالتیں صرف فوج کے اندر کے مقدمات کی سماعت کرتی تھیں۔ بعد میں فوجی معاملات میں مداخلت کرنے، ملک کی سلامتی کے خلاف جاسوسی، بغاوت اور فوج کو اپنے حکام کے خلاف اُکسانے کے جرم میں سول باشندوں کے خلاف بھی آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کا اختیار دے دیا گیا۔ ٭ …کسی سول باشندے کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کے لئے باقاعدہ کسی تھانے میں ایف آئی آر درج کرانا ہوتی ہے۔ اس میں ملزم کے خلاف الزامات کی تفصیل دی جاتی ہے۔ ایف آئی آر کے بعد متعلقہ مجسٹریٹ سے باقاعدہ فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کی اجازت حاصل کی جاتی ہے۔ فوجی عدالت کے ارکان مقدمہ کی نوعیت کے حوالے سے مقرر کئے جاتے ہیں۔ سنگین الزامات کے مقدموں کی سماعت جرنیل تک کرتے ہیں۔ اٹک سازش کیس میجر جنرل ضیاء الحق نے ملک کے آئین کی خلاف ورزی پر فوجی عدالت کے صدرکی حیثیت سے بعض اعلیٰ فوجی افسروں کو سزائیں سنائیں بعد میں خود آئین کو پامال کر کے بھٹو حکومت کو برطرف کر کے مارشل لا لگا دیا اس کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ (مجھے آرمی ایکٹ میں آئین شکنی کے خلاف کارروائی کی کوئی شق دکھائی نہیں دی، ممکن ہے سہو نظر ہو گئی ہو!)۔ اب عدالتی کارروائی کی بات! سِول ملزم کو اپنا وکیل کرنے کی اجازت حاصل ہوتی ہے۔ ملزم وکیل کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اسے فوج کی طرف سے وکیل فراہم کیا جاتا ہے۔ ملزم کو سزا کے خلاف اپیل کی اجازت ہوتی ہے جو کسی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں بھی کی جا سکتی ہے۔ اعلیٰ عدالتیں کسی قانونی سقم کے باعث سزائوں پر نظر ثانی کر سکتی ہیں۔ فوجی عدالتوں کے سزا یافتہ ملزم بھی عام سِول جیلوں میں قید رکھے جاتے ہیں۔ ملک کی عدالتی و قانونی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ سیاست دانوں کو عام عدالتوں کی بجائے فوجی عدالتوں کے حوالے کیا جا رہا ہے مگر یہ بھی پہلا واقعہ ہے کہ سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں نے سیاسی مفادات کی خاطر فوجی تنصیبات اور مراکز پر کھلے حملے، حتیٰ کہ فوج کے صدر دفتر جی ایچ کیو پر بھی ہلّہ بول دیا جائے۔ ٭ …تحریک انصاف کے ترجمان فواد چودھری نے9 مئی کے خونریز واقعات، جناح ہائوس کی تباہی، فوجی مراکز پر حملے، آتش زدگی، ایم ایم عالم کے طیارہ کی تباہی اور دوسرے تباہ کن واقعات کی سخت مذمت کی ہے اور انہیں شرم ناک قرار دیا ہے۔ فواد چودھری نے کہا ہے کہ فوج ہے تو پاکستان اور ہم ہیں ان واقعات میں اگر تحریک انصاف کے کارکن بھی ملوث ہیں تو انہیں سزا ملنی چاہئے۔ فواد چودھری تحریک انصاف کے پہلے عہدیدار ہیں جنہوں نے واضح الفاظ میں ان واقعات کی مذمت کی ہے، جب کہ اُن کے باس اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ان واقعات کی مذمت تو درکنار، کھل کر افسوس بھی ظاہر نہیں کیا، الٹا اسے اپنی گرفتاری پر اپنی پارٹی کا نہ صرف منطقی ردعمل قرار دیا ہے بلکہ دوبارہ گرفتاری پر پھر ایسے ہی ردعمل کو منطقی قرار دیا ہے۔ ویسے خان صاحب نے مدینہ منورہ میں مسجد نبویؐ کے مقام پر روضہ رسولؐ کے زیر سایہ وزیراعظم شہبازشریف پر تحریک انصاف کے کارکنوں کے حملے، وزیراعظم کے بال نوچے جانے اور ساتھ جانے والی خاتون وزیر کی بے حرمتی پر اظہار مذمت سے انکار کر دیا تھا۔ آج تک مذمت نہیں کی۔ انہیں کوئی نہیں سمجھاتا کہ فوج کے ساتھ بگاڑ کر کوئی حکمران نہیں چل سکتا! فوج اس عظیم وطن کی محافظ ہے، روزانہ دہشت گردی کے ہاتھوں قربانیاں دے رہی ہے۔ اسے محض اس فضول منطق کی بنیاد پر نشانہ بنا لینا کہ فوج نے مجھے اقتدار سے محروم کیا تھا، بالکل غلط جواز ہے! ٭ …ایک قاری نے پوچھا ہے کہ پی ڈی ایم نے سپریم کورٹ کے سامنے ایک روزہ بلکہ چند گھنٹے کے دھرنے سے کیا حاصل کیا ہے؟ یہ بات مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز سے پوچھیں، اور مجھے بھی بتائیں۔ ان دونوں سے یہ بھی پوچھیں کہ ان لوگوں کی دفعہ 144 کی کھلی خلاف ورزی کا جواز کیا تھا؟ ٭ …ایک بے روزگار، مفلوج بے حد غریب دیہاڑی دار محنت کش کی بیٹی کی رخصتی کا اہم مسئلہ درپیش ہے۔ بچی کی رخصتی عید سے پہلے طے ہو چکی ہے۔ گھر میں فاقوں کی حالت ہے۔ بچی کی رخصتی کے لئے برتن، فرنیچر، کپڑے وغیرہ کچھ بھی نہیں۔ اس کی ماں کو روتے دیکھ کر بہت دکھ ہوا ہے۔ دردمند مخیرحضرات سے امداد کی اپیل کی گئی ہے۔ میرے نمبر 03334148962 کے ذریعے تفصیل اور ان سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ میں اس خاندان کی حالت سے ذاتی طور پر واقف ہوں۔
