اسلام آباد(نیوزڈیسک) فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے کی تحقیقات کیلئےتشکیل کردہ انکوائری کمیشن نے سابق سربراہ آئی ایس آئی فیض حمید کو کلین چٹ دیدی، رپورٹ کے مطابق08 نومبر 2017 کو تحریک لبیک پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم کے خلاف فیض آباد انٹر چینج پر دھرنا دیاپیمرا کے سابق سربراہ ابصار عالم نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید نے فیض آباد دھرنے کے دوران میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی پر دباؤ ڈالا۔
ابصار عالم نے بتایا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے ان پر سینئر صحافی نجم سیٹھی کے خلاف کارروائی اور سابق امریکی سفیر حسین حقانی پر پابندی لگانے کیلئے دباؤ ڈالا تاہم ان کے مطالبات تسلیم نہیںکئے گئے۔وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کی جانب سے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کو مسترد کئے جانے کے جواب میں ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل اختر علی شاہ کی سربراہی میں انکوائری کمیشن قائم کیا تھا۔تاہم، انکوائری کمیشن نے جاری کردہ اپنی 149 صفحات کی رپورٹ میں سابق سربراہ آئی ایس آئی کو کلین چٹ دے دی۔
مزید یہ بھی پڑھیں: پٹرول کی فی لٹرقیمت میں4روپے53 پیسے کااضافہ
کمیشن نے موقف اپنایا کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف نے فیض حمید کو معاہدے کی اجازت دی تھی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر داخلہ احسن اقبال کو بھی معاہدے کیلئے آن بورڈ لیا گیا تھا۔فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں قائم کیا گیا تھا۔ کمیشن نے فیض آباد دھرنے سے متعلق وجوہات کا جائزہ لیا اور سفارشات بھی دیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پالیسی سازوں کو فیض آباد دھرنے سے سبق سیکھنا چاہیے کیونکہ اس طرح کے واقعات حکومتی پالیسی کی خامیوں کی وجہ سے ’ایندھن‘ ہوتے ہیں۔پنجاب حکومت نے ٹی ایل پی مارچ کو لاہور میں روکنے کے بجائے اسلام آباد جانے کی اجازت دی۔جڑواں شہروں کی پولیس میں کمیونیکیشن کی کمی کی وجہ سے کئی ہلاکتیں ہوئیں، رپورٹ میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت نے ٹی ایل پی کی قیادت تک رسائی حاصل کرنےکیلئے آئی ایس آئی کو شامل کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’خفیہ ایجنسی کی مدد سے ایک معاہدہ طے پایا، جس کے بعد 25 نومبر 2017 کو مظاہرین منتشر ہو گئے‘‘۔08 نومبر 2017 کو تحریک لبیک پاکستان (TLP) نے الیکشن بل 2017 میں ترامیم کے خلاف فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا دیا، لفظ حلف کو ڈیکلریشن میں تبدیل کر دیا۔مظاہرین نے “ملک کے تشخص کے تحفظ” کے لیے وزیر قانون و انصاف زاہد حامد کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔احتجاج کے نتیجے میں اس وقت کی مسلم لیگ ن کی حکومت کو اپنے وزیر قانون زاہد حامد کو برطرف کرنا پڑا۔
سپریم کورٹ نے 21 نومبر 2017 کو دھرنے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔بعد ازاں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک ڈویژن بنچ نے 6 فروری 2019 کو دھرنا کیس میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اس کہانی میں خفیہ ایجنسیوں کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔اس سال ستمبر میں چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد، جسٹس عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے فروری 2019 کے فیصلے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے فہرست بنائی۔یکم نومبر کو بنچ نے معاملے کی تحقیقات کے لیے حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو مسترد کر دیا اور اسے دھرنے کے ماسٹر مائنڈ کو بے نقاب کرنے کے لیے انکوائری کمیشن بنانے کا حکم دیا۔