اسلام آباد(نیوز ڈیسک ) نومنتخب وزیر اعظم شہباز شریف نے ایوان سے پہلا خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہم مل کر فیصلہ کرلیں تو پاکستان
مزید پڑھیں:شہباز شریف پاکستان کے نئے وزیراعظم منتخب
کو اس کا صحیح مقام دلائیں گے، کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے، ہمیں اب نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانی ہیں۔ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ایوان میں اپنا پہلا خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج کی اپنی تقریر اللہ تعالیٰ کے
پاک نام سے شروع کرتا ہوں، اسپیکر ، ڈپٹی اسپیکر اور پورے ایوان کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں، نواز شریف کو اس منصب پر نامزد کرنے کیلئے مبارکباد پیش کرتا ہوں، بلاول بھٹو ، خالد مقبول صدیقی ، چوہدری شجاعت ، سالک حسین ،
عبدالعلیم خان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، ان کے ووٹوں اور اپنی محبت سے قائد ایوان منتخب کیا، یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کرنا چاہتا ہوں میرے قائد نوازشریف تین مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے۔نو منتخب وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی لیڈرشپ میں ترقی و خوشحالی کےانقلاب آئے، ترقی و خوشحالی کے انقلاب اپنی مثال آپ ہیں، نوازشریف معمار پاکستان ہیں،
لوڈشیڈنگ نواز شریف کے دور میں ختم ہوئی، جس نے پاکستان میں ایٹمی قوت کی بنیاد رکھی، ان کی خدمات کو قوم ہمیشہ یاد رکھے گی، بینظیر بھٹو شہید نے جمہوریت ، قانون ، انصاف کیلئے جان کا نذرانہ پیش کیا، نواز شریف کو ملک میں ترقی و خوشحالی کے
مینار تعمیر کرنے کی سزا دی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف اور میری بھتیجی جیل میں گئیں، آصف زرداری کی ہمشیرہ جیل میں گئیں، بینظیربھٹو شہید ہوئیں تو آصف زرداری نے کہا پاکستان کھپے، نوازشریف نے کبھی پاکستان کے مفاد کیخلاف بات کرنا درکنار کبھی پاکستان کے مفاد کیخلاف بات کرنے کا سوچا بھی نہیں، یہ ہے وہ فرق جو قومی قیادت نے پاکستان کی تاریخ میں ادا کیا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہماری مخالف قیادت نے کیا کیا گرے ہوئے الفاظ استعمال کیے جو زبان پر نہیں لائے جاسکتے، پاکستان کیخلاف زہر اگلا گیا، پاکستان کی افواج کیخلاف زہر اگلا گیا، 2 صوبوں کے وزرائے خزانہ سے کہا آئی ایم ایف کے حوالے سے کوئی مدد نہیں کرنی، اس قیادت اور اس قیادت میں یہ فرق ہے، ہم نے کبھی بدلے کی سیاست کا سوچا بھی نہیں،
پاکستان کے مفاد میں صبر ، تحمل اور برداشت سے کام لیا، کبھی کوئی گملہ نہیں ٹوٹا ، کسی بلڈنگ کو نقصان نہیں پہنچا۔انہوں نے کہا کہ ستم ظریفی کی بات ہے قوم نے وہ دن بھی دیکھا 9 مئی کو اداروں پر حملے کیے گئے، 9 مئی کو جی ایچ کیو اور کورکمانڈر ہاؤس پر حملے کیے گئے،
یہ دلخراش واقعہ دیکھی آنکھ سے کبھی نہیں دیکھا تھا، ایک پاکستانی نے کبھی نہیں سوچا تھا، کیا بیتی ہوگی ان شہدا کے ورثا پر، ان ہزاروں گھرانوں میں جن کے پیارے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے مقابلے میں
نوازشریف کا فیصلہ تھاپانی سر سے اونچا ہوگیا، نوازشریف کا فیصلہ تھا اب دہشت گردی کیخلاف متحد ہو جانا چاہیے، کیا یہ بات قابل معافی ہے ، یہ فیصلہ ایوان اور قانون نے کرنا ہے، ہمارے سامنے 2 راستے تھے، ایک راستہ یہ تھا ہم اپنی سیاست بچا لیتےاور آرام سے بیٹھے رہتے،
دوسرا راستہ ملک کو بچانے کیلئے ہر چیز کی قربانی دے دیں، نوازشریف ، آصف زرداری ، بلاول بھٹو ، سردارمگسی ، عبدالعلیم خان اور وہ ساتھی جو ایوان میں پیچھے بیٹھے ہیں ، انہوں نے فیصلہ کیا سیاست قربان ہوتی ہے تو ہوجائے، آج بطور پاکستانی اور سیاستدان ہم اپنا کردار ادا کریں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں،
ہمارے پاس دریا،سمندر ہے،، معزز ایوان بھرا پڑا ہے، عظیم پاکستانی اس ایوان اور چاروں صوبوں میں بیٹھے ہیں، جو ملک کی کشتی کو منجھدار سے نکال کر کنارے لے جائیں گے، اس میں اہل دانش ، جرنلسٹ ، سیاستدان بھی ہیں، نوجوان پاکستان کا ہر اول دستہ ہیں، نوجوان اللہ تعالیٰ کا انمول تحفہ ہیں، ہم مل کر فیصلہ کرلیں ملک کی تقدیر بدلنی ہے
تو انشااللہ ہم ہمالیہ نما چیلنجز کو عبور کریں گے، مل کر فیصلہ کرلیں تو پاکستان کو اس کا صحیح مقام دلائیں گے، کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بڑے بڑے چیلنجز قوم کو کانٹے کی طرح چبھ رہے ہیں، پہلے ہمیں اس بات کا ادراک ہوجائے چیلنجز ،
مشکلات ہیں کیا، بجٹ کے اس دوارنیے میں کل معدنیات کا اندازہ ہے وہ 12ہزار300ارب روپے ہے، صوبوں کواین ایف سی ایوارڈ کے تحت تقسیم کے بعد صرف 7 ہزار300 ارب بچتے ہیں، 7 ہزار 300 ارب جو بچتے ہیں اس میں صرف سود کی
ادائیگی 8ہزار ارب ہے، یعنی700 ارب کا ڈے ون سے خسارہ، 700ارب کا خسارہ ہو تو ترقیاتی منصوبوں کا پیسہ کہاں سے آئے گا، تعلیم ، صحت کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا، افواج پاکستان کی تنخواہیں کہاں سے دیں گے، جب خسارہ ہو تو سرکاری افسران کی تنخواہیں کہاں سے دیں گے، پچھلے کئی سال سے سب کچھ قرض درقرض لیکر کیا جارہا ہے،
یہ ہے وہ سب سے بڑا چیلنج جو قوم کامسئلہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آج شعور کا راج ہونا چاہیے تھا، جس ایوان میں بیٹھے ہیں اس کے اخراجات بھی قرض سے ادا ہوتے ہیں، اسپیکر،پورے ایوان کی تنخواہ قرضوں سے ادا کی جارہی ہے، کیا یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے شور شرابا کیا جائے، یا شعور کو فروغ دیا جائے،فیصلہ ایوان نے کرنا ہے، آج تک ہم 80 ہزار ارب
بیرونی،اندرونی،پرائیویٹ قرض لے چکے ہیں، کیا اس صورتحال میں ایک عظیم ایٹمی قوت کا پاکستان اپنے وجود کو برقرار رکھ سکتا ہے؟، ہمیں اب نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانی ہیں، ہم نے مختلف شعبوں میں بنیادی ریفارم لانی ہیں، کوئی شک
نہیں نوازشریف ، آصف زرداری ، بلاول بھٹو و دیگر اتفاق کریں گے، یا تو ہم قرضوں کی زندگی سے جان چھڑا لیں، یا جس طرح محکوم قومیں ہوتی ہیں سرجھکا کر خود کو چلائیں۔انہوں نے کہا کہ انشااللہ ہم ملکر پاکستان کو عظیم بنائیں گے، ایک اور کانٹوں بھرا چیلنج وہ بجلی کے ہوشربا قیمتوں میں اضافے کا ہے، گردشی قرضہ اس وقت بجلی کا 2300ارب پر پہنچ چکا ہے، 3800ارب کی بجلی ترسیل ہوتی ہے، وصولی صرف 2800ارب کی ہوتی ہے،
ایک ہزار ارب کا گیپ ہے، آج کے ریٹ کے مطابق تقریبا ًساڑھے 3 ارب ڈالر بنتے ہیں، کیا یہ غریب قوم اس انتہائی بے دردی سے گورننس کی متحمل ہوسکتی ہے؟، ایک ہزارارب روپےسندھ ، بلوچستان ، کے پی ، پنجاب ، گلگت بلتستان اور کشمیر میں دنیا کے درجنوں اسپتال،یونیورسٹیاں بناسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہر سال ایک ہزار ارب خسارے میں جارہا ہے،
قوم کی حالت سب کے سامنے ہے، ایک بالٹی ہو اور نیچے سراخ ہواس میں جتنا پانی ڈالیں نکل جائے گا، ایک ہزار ارب کی سبسڈی دینے کے باوجود سال میں 500 سے600 ارب کی بجلی چوری ہوتی ہے، گھڑی چوری کی بات نہیں کر رہا ، بجلی چوری کی بات کر رہا ہوں۔