اہم خبریں

تمام نظربندوں کی رہائی کا حکم، سندھ و پنجاب ہائی کورٹ

سندھ، پنجاب ہائی کورٹوں کےپی ٹی آئی کے تمام نظر بندوں کی رہائی کےاحکامO پرویزالٰہی گرفتارO پختونخوا،پرویز خٹک تحریک انصاف کے عہدوں سے مستعفیO’’کس قانون کے تحت پرائیویٹ کالیں ریکارڈ اورنشرکی جا رہی ہیں؟‘‘ اسلام آبادہائی کورٹ کا حکومت سےسوال،جسٹس ثاقب نثارکےبیٹےکی درخواست پرتحقیقاتی کمیٹی میں حاضری کانوٹس معطلO پارلیمنٹ،سرکاری ارکان کے ترقیاتی فنڈز میں 19 ارب روپے کا اضافہ،70 ارب سےبڑھا کر89 ارب روپے!!O آئی ایم ایف کی ناقابل عمل سخت شرائط پرقرضہ پروگرام نامکمل ہی ختم کرنے کافیصلہ!O سپریم کورٹ نےاسمبلی میں سپریم کورٹ کےخلاف تقریروں کا ریکارڈ ویب سائٹ سے حاصل کرلیا، حکومت نے فراہم کرنے سے انکار کردیاتھاO حکومت اورسپریم کورٹ میں خوش گوارمفاہمت،حکومت سپریم کورٹ پرپابندیوں کے قانون پر چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد نظرثانی کرنے پر تیار! O وفاقی شریعت کورٹس کے چیف جسٹس اقبال حمید الرحمان نے حلف اٹھا لیا، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمرعطابندیال نےحلف لیا، جسٹس فائزعیسیٰ بھی موجود تھےO لاہور ہائی کورٹ، جسٹس انوارالحق پنوں کاعدم پیشی پر پی ٹی آئی کےوکیل اظہرصدیق پر 3 ہزار روپےجرمانہ کاحکمO وزیراعظم شہبازشریف ترکی چلے گئے، صدر اردوان کی کامیابی کی تقریب میں شرکت کریں گےO یوٹیلیٹی سٹور، شہد، اچار اوردوسری چیزوں پر 80 سے190 روپے تک قیمتوں میں اضافہO ڈالر 315 سے 298 روپے پر آ گیاO ’’تحریک انصاف کے ساتھ رہوں گا‘‘ شاہ محمودقریشی!O راناثناءاللہ: عمران خان کو وزیراعظم کے ساتھ بیٹھنے کی پیش کشO کراچی دودھ 220 روپے کلو۔

٭عمران خان نے بتایاکہ تحریک انصاف کے 10 ہزار کارکن جیلوں میں بندکردیئےگئے ہیں۔ابھی مزیدگرفتاریاں ہو رہی ہیں اورچھاپے مارےجارہے ہیں۔ دوسری طرف سندھ اور پنجاب کی ہائی کورٹوں نے ان گرفتاریوں کو غیر قانونی قرار دے کر9 مئی کے واقعات کےحوالے سےنظربندکئے جانے والے تمام ارکان کورہاکرنے کےاحکام جاری کردیئے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس بات کا سخت نوٹس لیا ہے کہ ان نظربندافراد کو تحفظ امن عامہ کے 1960ء کےقانون کے تحت گرفتارکیاگیاہےمگرانہیں گرفتاری کی وجوہ نہیں بتائی گئیں۔ عدالت کے حکم کے مطابق کسی فوجداری جرم میں گرفتارشخص کو اس کے جرم کی تفصیل مہیا کی جاتی ہےمگر تحفظ امن عامہ قانون کے تحت ایسا نہیں کیاگیا یہ قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ٭اہم فیصلے:حکومت جُھک گئی۔ سپریم کورٹ پر پابندیوں کےقانون پر چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد نظرثانی کرنے پر تیار ہو گئی۔ اٹارنی جنرل کے بیان پر تلخ ماحول اک دم خوش گوارہو گیا۔ اس سے اہم مسئلہ طے ہو گیاکہ آئندہ سپریم کورٹ کےبارے میں عدالت سے مشورہ کےبغیر یک طرفہ کارروائی نہیں ہو سکےگی۔ کچھ قانونی بزرجمہربارباراعلان کررہے تھے کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ سےبالاتر ہے، آئین میں قانون سازوں کے لئے سپریم کورٹ سےمشاورت ضروری نہیں۔ اسی نظریہ کے تحت سپریم کورٹ کےسینئر ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ کوچیف جسٹس سمیت عدلیہ کےتمام ججوں کے کردارکی تحقیقات کےکمیشن کاسربراہ بنادیا گیاہے۔ سپریم کورٹ کےایک بنچ نےاس اقدام کو معطل کر دیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اس طرح کے نہائت اہم اقدام کے لئے آئین میں مشاورت کا لفظ موجود نہیں مگر یہ بھی درج ہے کہ جن معاملات پر آئین خاموش ہے،ان کے بارے میں سپریم کورٹ کوئی راستہ نکال سکتی ہے، اسے وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ بہر حال، دیر آئد درست آئد، قوم نے اعلیٰ ترین عدلیہ اورحکومت میں ایک بڑے تنازعہ پر مفاہمت پر سکھ کاسانس لیا ہے۔ ٭یوں لگتا ہےکہ حکومت آئی ایم ایف سےقرضہ کے حصول کےبارے میں بالکل مایوس ہو گئی ہے، گزشتہ روز سرکاری طور پر آئی ایم ایف کے رویہ پر سخت تنقید کی گئی اس کے بعد آئی ایم ایف کے قرضہ کے بغیربجٹ کی تشکیل کاعزم بھی خوش آئندہے۔ حالات کیسے ہی سخت کیوں نہ ہوں عوام حکومت کاساتھ دینے کو تیار ہوں گے، مگر پھر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ملک انتہائی بدحالی سےدوچار ہے اور اس پر 90 وزراء اور مشیروں کی کابینہ سوار ہے؟ وزیراعظم اپوزیشن میں تھے تو وہ اور بلاول زرداری باربار عمران خان کی 71 وزراء کی کابینہ کو نشانہ بنایاکرتےتھے(درحقیقت 51 وزرا اورمشیر تھے)اب خود شہبازشریف کی 90 وزراکی کابینہ موجود ہےتو بلاول کی زبان خاموش ہے۔ قوم واضح سوال کر رہی ہےکہ مقروض بدحال ملک پر90یاجوجوں ماجوجوں کی کابینہ کی کیاتُک ہے؟ مزید یہ کہ پارلیمنٹ میں حکومت کےحاشیہ بردارارکان اسمبلی کےغول بیابانی کےلئے 89 ارب کےترقیاتی فنڈکےنام پر’جیب خرچ‘ مخصوص کرنے کاکیاجوازہے؟ظاہرہے یہ جاری فنڈ وفاداریاں توڑنےاورساتھیوں کی تجوریاں بھرنےکےکام آئے گا۔ آج تک کسی ایسے فیض یافتہ رکن کو دیئے جانے والےکروڑوں روپے کاحساب نہیں پوچھاگیا۔بظاہریہ رقوم سرکاری محکموں کی زیرنگرانی ترقیاتی کاموں کےلئے دی جاتی ہیں مگرارکان اسمبلی اسےکسطرح استعمال کرتے ہیں؟ کبھی اسکاجائزہ نہیں لیاگیا۔ ترقیاتی کاموںکےلئےاستعمال ہونےوالےفنڈزکی ٹھیکیداروں کےساتھ کس طرح بندربانٹ ہوتی ہے،نام نہادٹھیکیداروں کے ذریعےان فنڈزسے تجوریاں کیسے بھرتی ہیں؟ اور قومی خزانے کی لوٹ مارکیسے ہوتی ہے، اسکی ایک کھلی مثال دریائے راوی پرلاہور کےسگیاں پل اوراسکی سڑکوں کی تعمیر ہے۔ اس پُل کی اربوں کے اخراجات سے تعمیر مکمل ہوئی تو منصوبہ کے انچارج ایکس ای این (XEN) نے مجھے بڑے فخرسے بتایا کہ دریائے راوی پر کچھ دُور موٹر وے پل کے مقابلہ میں سگیاں کا پُل نصف رقم سے بنایا گیا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ سگیاں پل سے بہت پہلےبناہوا موٹر وے کا پُل بالکل صحیح حالت میں موجود ہے اورسگیاں پُل اسطرح شدیدتوڑ پھوڑ کے بعد کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے کہ اسے ٹریفک کےلئےروکنا پڑا ہے۔ اب پھراسکی تعمیر کااربوں کانیامنصوبہ بن رہا ہے۔ اس کی ناقص تعمیر کاانچارج ایکسیئن اپنی تجوری بھر جانےپر مستقل طور پر امریکہ میں آباد ہوچکا ہے۔ اب نئے ایکس ای این کی باری ہے۔ ٭سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکےبیٹےنجم ثاقب کو حکومت کی پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی نے موبائل فون کی کالوں کےذریعے پی ٹی آئی کی ٹکٹوں کےلئے کروڑوں کی سودےبازی کےالزام میں تحقیقات کےلئےطلب کیا۔ نجم ثاقب نے اس الزام کاجواب دینےکی بجائے حکومت کو پرائیویٹ کالیں ریکارڈ کرنےکی ’مجرم‘ قراردےدیا۔ اس سلسلہ میں سپریم کورٹ کےدو فیصلوں کاحوالہ بھی دیاگیاہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 9 صفحات کے فیصلہ کےساتھ نجم الثاقب کی طلبی روک دی ہے۔ حکومت کاعام لوگوں کی باتوں کا سراغ لگانااورپھر انہیں نشر کرنابلاشبہ نامناسب فعل بلکہ شرعی احکام کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مختلف افرادکی آپس کی باتوں کوجس طرح ریکارڈ کیاجارہاہے اس سےعوام کی اظہاررائے کی آزادی کی کھلی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ ٭ایک دلچسپ خبر: تادم تحریرتحریک انصاف کےلاہور کے سابق وزراءحماداظہراوراسلم اقبال مفروراورروپوش ہوچکےہیں۔ پولیس اب تک 10مقامات پرچھاپے مار چکی ہے، دونوں ہاتھ نہیں آ رہے۔ حیرت یہ کہ دونوں رہنما اپنے کارکنوں کےساتھ فون کالوں کےذریعے مسلسل رابطے میں ہیں۔ پولیس نےپریشانی کی بات یہ بتائی ہے کہ جدید ترین آلات کےذریعے 10مختلف مقامات پر ان دونوں کی موجودگی کی نشاندہی ہوئی، مگر پولیں وہاں پہنچی تو وہ کہیں اورجاچکےتھے۔ قارئین جانتے ہیں کہ اس قسم کے کردار کو ’چھلاوا‘ کہاجاتاہےجو کسی روپ میں نظر آتا ہےمگر پاس جائیں تو غائب ہو جاتا ہے۔ ٭وزیراعظم ایک طرف عوام کوبجٹ میں ریلیف دینے کی خوش خبریاں سنارہے ہیں اور دوسری طرف یوٹیلیٹی سٹوروں پرعوام کومختلف اشیاپرریلیف کی بجائے متعدداشیا کی قیمتوں میں ہوش ربااضافہ کردیاگیاہے، مثال کےطور پرشہد کی 500 گرام شیشی کی قیمت میں 101 روپے،چکن سپریڈکی قیمت میں 190 روپے، ٹماٹر کیچپ (چٹنی) کی قیمت میں 80 روپے،اچار کی قیمت میں 80 روپے اضافہ کیاگیاہے!

متعلقہ خبریں