لاہور(اے بی این نیوز)اُبھرتے ہوئے اداکار اور ماڈل محمد عثمان ملک حالیہ دنوں ایک بولڈ فوٹوشوٹ کی وجہ سے سوشل میڈیا پر شدید تنقید اور ٹرولنگ کا شکار ہو گئے ہیں، جسے بہت سے لوگوں نے پاکستان کے ثقافتی سیاق و سباق کے لحاظ سے نامناسب اور اشتعال انگیز قرار دیا ہے۔محمد عثمان ملک، جو ٹیلی ویژن اور میوزک دونوں میں کام کر چکے ہیں، نے سوشل میڈیا پر اپنی چند اسٹائلش اور بولڈ تصاویر شیئر کیں۔
ان تصاویر میں وہ کچھ حد تک بھارتی اداکار رنویر سنگھ کے 2022 کے متنازع نیوڈ فوٹوشوٹ کی یاد دلاتے نظر آ رہے ہیں۔ ملک نے اس فوٹوشوٹ کو “فنکارانہ خود اظہار اور جسمانی اعتماد” کا مظہر قرار دیا، مگر سوشل میڈیا صارفین نے اسے کچھ اور ہی سمجھا۔پوسٹ کے چند ہی گھنٹوں بعد ہزاروں کمنٹس آنے لگے، جن میں اکثریت نے اداکار پر اخلاقی حدیں عبور کرنے، ثقافتی اقدار کی توہین کرنے اور محض توجہ حاصل کرنے کے لیے ایسا قدم اٹھانے کا الزام لگایا۔
چند نمایاں تبصرے کچھ یوں تھے:
• “یہ آرٹ نہیں، بے حیائی ہے۔”
“یہ سب بولی وڈ میں کرو، پاکستان میں نہیں۔”
• “ہم ہمیشہ مغرب کی بدترین چیزیں ہی کیوں نقل کرتے ہیں؟”
یہ تصاویر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستانی ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر وائرل ہو گئیں اور عثمان ملک ٹرینڈنگ لسٹ میں شامل ہو گئے — مگر منفی انداز میں۔ تنقید عام ٹرولنگ سے لے کر سنجیدہ نوعیت کی شکایات اور پوسٹ ہٹانے کے مطالبوں تک جا پہنچی۔
کچھ افراد نے حتیٰ کہ حکام سے قانونی کارروائی کی اپیل بھی کی، پاکستان کے میڈیا ضوابط اور عوامی اخلاقیات کے قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے۔اگرچہ چند مداحوں نے ان کے خود کو ظاہر کرنے کے حق کی حمایت کی، مگر مجموعی طور پر ردِعمل منفی رہا۔تنقید کے جواب میں محمد عثمان ملک نے اپنی انسٹاگرام اسٹوری پر مختصر پیغام میں کہا:“کہا گیا خاموش رہو، میں نے چُن لیا نظر آنا۔
یہ ہوں میں، قبول کرو یا چھوڑ دو۔”انہوں نے تصاویر کو تاحال ڈیلیٹ نہیں کیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔یہ واقعہ ایک بار پھر پاکستانی میڈیا میں جاری اُس بحث کو تازہ کر گیا ہے: ذاتی آزادی اور عوامی اخلاقیات کے درمیان لکیر کہاں کھینچی جائے؟ کیا بولڈ اندازِ اظہار کو ایک قدامت پسند معاشرے میں قبول کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا مشہور شخصیات پر ثقافتی معیار مقرر کرنے کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟
سوشل میڈیا پر عوام منقسم دکھائی دے رہے ہیں کچھ افراد ملک پر بھارتی یا مغربی مشہور شخصیات کی اندھی تقلید کا الزام لگا رہے ہیں، جبکہ دوسرے ان کے “اپنے آپ بننے” کے حق کی حمایت کر رہے ہیں۔
فی الحال، تصاویر آن لائن موجود ہیں اور تنقید بھی۔ملک کا مستقبل اب ایک نازک موڑ پر ہے۔ بلاشبہ تنازعات سے شہرت تو ملتی ہے، مگر پاکستان کے قدامت پسند انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں یہ سپانسرز، پروڈیوسرز اور مین اسٹریم پلیٹ فارمز سے دوری کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔
190 مزید پڑھیں: ملین پائونڈ کیس،نیب کی نئی پراسیکیوشن ٹیم تشکیل