اسلام آباد(بشارت راجہ)سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملہ پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کردیے، دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر دو آرا ہیں، نیب کیسز میں اگر تاحیات نااہلی کی سخت سزا ہے تو قتل کی صورت میں کتنی نااہلی ہوگی؟سپریم کورٹ نے تاحیات ناہلی کی مدت کے تعین کے معاملے کو لارجز بنچ کے سامنے مقرر کرنے کیلئے ججز کمیٹی کو بھجوا دیا، سپریم کورٹ نے میر بادشاہ قیصرانی کی جعلی ڈگری میں تاحیات نااہلی کیس میں نوٹس لیا جس کی سماعت قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، درخواست گزار نے کہا کہ جھوٹے بیان حلفی پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے کو نااہل ہی ہونا چاہیے، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح پر پانامہ کیس میں فیصلہ دے دیا تھا، جس پر جسٹس جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر دو آرا ہیں، تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آچکا ہے؟ تاحیات نااہلی بارے سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں سے کسی ایک کو برقرار رکھنا ہوگا۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سنگین غداری جیسے جرم پر نااہلی پانچ سال ہے تو نماز نہ پڑھنے والے یا جھوٹ بولنے والے کی تاحیات نااہلی کیوں؟ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بننے کے بعد اس آئینی تشریح پرکم سے کم پانچ ججز کا بنچ بننا چاہیے، آپ کو توسط سے یہ کنفیوژن دور ہوجائے گی سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ معاملے کی کیس کی سماعت جنوری 2024 میں ہوگی اور معاملہ تین رکنی کمیٹی کو بھیجتے ہوئے کہا کہ کمیٹی طے کرے گی لارجر بنچ پانچ رکنی ہوگا یا سات رکنی، موجودہ کیس کو انتخابات میں تاخیر کے آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کیا جائےگا، موجودہ کیس کا نوٹس دو انگریزی کے بڑے اخبارات میں شائع کیاجائے، سپریم کورٹ کی جانب سے نوٹس میر بادشاہ قیصرانی کی تاحیات نااہلی کے کیس میں لیا گیا۔ عدالتی حکمنامے کی نقل الیکشن کمیشن کو بھی ارسال کرنے کا حکم بھی دیا اور کہا کہ کوئی سیاسی جماعت اس کیس میں فریق بننا چاہے تو بن سکتی ہے، کیس میں جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ انتخابات کے حوالے سے کوئی غیر یقینی صورتحال نہیں، اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یہ سپریم کورٹ کی توہین ہوگی۔
