نیشنل اکائونٹس کمیٹی کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق موجودہ مالی سال کے دوران فی کس آمدنی گزشتہ سال کی نسبت کم ہوگئی ہے۔ گزشتہ مالی سال یعنی پچھلی حکومت کے آخری سال کے دوران فی کس سالانہ آمدنی اوسطاً ایک ہزار سات سو چھیاسٹھ ڈالر تھی جبکہ موجودہ حکومت کے اس ایک سال کے دوران سالانہ فی کس آمدنی کم ہوکر ایک ہزار پانچ سو اڑسٹھ ڈالر ہوگئی ہے۔ اگر ہم آسان لفظوں میں اس کی وضاحت کریں تو اس کا مطلب ہے کہ اس وقت پاکستانیوں کی اوسط ماہانہ آمدنی چالیس سے پینتالیس ہزار روپے ہے جو کہ معاشی اعتبار سے پسماندہ ترین ممالک میں سے ایک میں ہمارا شمار ہوسکتا ہے۔ اس آمدنی سے گھر کے کچن کے اخراجات پورے کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اسی طرح رواں مالی سال کے دوران جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف5 فیصد مقرر کیا گیا تھا گو کہ 5 فیصد شرح نمو کا ہدف بھی بہت کم تھا کیونکہ گزشتہ سال یعنی پچھلی حکومت کے آخری سال شرح نمو 6 فیصد سے بھی زائد تھی اور رواں مالی سال میں شرح نمو کا ہدف محض5 فیصد تھا لیکن معاشی حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ رواں مالی سال کے اختتام تک شرح نمو صرف0.29 فیصد رہنے کا بتایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افسوسناک بات یہ ہے کہ مہنگائی پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ افراط زر کا ہدف 11.5 فیصد مقرر کیا گیا تھا مگر حالات اس حد بگڑ چکے ہیں اور مہنگائی کا جن بے قابو ہوچکا ہے۔ افراط زر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق36.4 فیصد کے ساتھ55 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ اگر سرکاری اعدادو شمار سے ہٹ کر زمینی حقائق کی طرف متوجہ ہوں تو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اشیائے خوردونوش سمیت ہر ایک شئے کی قیمت تقریباً دوگنا ہوچکی ہے یعنی مہنگائی میں سو فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔
ان حالات میں محدود آمدنی کے حامل افراد کی ماہانہ آمدنی سکڑ کر آدھی ہوچکی ہے۔ ان میں سرکاری و نجی اداروں کا تنخواہ دار طبقہ اور مزدور لوگ شامل ہیں۔ نجی اداروں میں سے ہر ادارے کی اپنی پالیسی ہوتی ہے اور وہ اس پالیسی کے تحت اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ بعض ملٹی نیشنل کمپنیاں ڈالر کی شرح سے بعض مہنگائی کے تناسب سے بعض اکثر نجی کمپنیاں اپنے وسائل کے مطابق ملازمین کے لئے سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ مزدوروں کا طبقہ معاشرے کا کمزور ترین طبقہ ہے۔ مزدوروں کی اوسط یومیہ اجرت آٹھ سو روپے سے ایک ہزار روپے ہیں۔ اگر مزدور مہینے کے تیس روز مزدوری کرے اور اسے کام ملتا رہے تو اس کی ماہانہ آمدنی زیادہ سے زیادہ30 ہزار روپے ہوسکتی ہے۔ مگر عموماً ایسا ہوتا نہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی بھی انسان کبھی چھٹی نہ کرے۔ بشری تقاضے ہوتے ہیں۔ صحت اور بیماری ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ اس قدر قلیل آمدنی سے ایک مزدور اپنا گھر کیسے چلائے؟ اس کا گزر بسر اتنی تھوڑی رقم سے تقریباً ناممکن ہے۔ جہاں تک سرکاری ملازمین کا تعلق ہے یہ ایسا مجبور اور بے بس طبقہ ہے جو اپنی مجبوریوں کے باوجو د صدائے احتجا ج بلند نہیں کرسکتا۔ حکومت کے رحم و کرم پر زندگی کے شب و روز گزارنے والے ملازمین ہر سال سالانہ بجٹ کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔ اگر حکومت نے مہربانی فرمائی اور چند فیصد معاوضہ بڑھا دیا تو یہ بے چارے ملازمین صبر و شکر کے ساتھ قبول کرلیتے ہیں۔ سرکاری ملازمین سے بڑھ کر میں نے کسی کو صابر و شاکر نہیں پایا۔ یہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کرنے والا طبقہ ہے۔ پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کم تنخواہ کا شکوہ کرنے یا احتجاج کرنے کی بجائے اپنی خدمات بہتر معاوضہ دینے والے اداروں کے سپرد کر دیتے ہیں مگر سرکاری ملازمین کی صلاحیتیں ایسی زنگ آلود ہوچکی ہوتی ہیں کہ یہ کسی اور ادارے میں جانے کے قابل بھی نہیں ہوتے اور طوعاً و کرھاً اپنی زندگی کے60 سال پورے کرنے میں وقت گزار دیتے ہیں۔ سرکاری افسران کی تنخواہیں کسی حد تک بہتر ہیں مگر ان کے اخراجات‘ بہتر معیار زندگی کو قائم رکھنا‘ بچوں کے تعلیمی اخراجات اور دیگر اخراجات باقیوں کی نسبت کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری افسران بھی تنخواہوں میں اضافے کی خبر کا اسی طرح انتظار کرتے ہیں‘ جس طرح ملازمین کا نچلا طبقہ۔ جون کا مہینہ آن پہنچاہے۔9 جون کو وفاقی حکومت سالانہ بجٹ کا اعلان کرے گی اور اسی آئندہ سال کے سالانہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لئے خوشخبری بھی موجود ہوتی ہے۔ جس کا وہ پورا سال بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔ مہنگائی کا تناسب ملکی تاریخ میں بلند ترین سطح پر ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران40 فیصد سے زائد مہنگائی ہوچکی ہے جبکہ روپے کی بے قدری تقریباً90 فیصد کے لگ بھگ ہے ۔ نجی اداروں کے ساتھ ساتھ اگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں50 فیصد اضافہ ہوتا ہے تو گویا ان کی قوت خرید میں کمی کا تناسب ختم ہوسکتا ہے۔ حکومت یقینا اس طرف متوجہ ہوگی۔ گو کہ معاشی حالات انتہائی خراب ہیں اور حالات کی خرابی میں کسی بھی سرکاری ملازم کاکوئی کردار نہیں۔ حکومت کو بھی احساس ہے جس کا اظہار وہ کئی مواقع پر کرچکی ہے ۔ خود وزیراعظم اور وزیر خزانہ بھی برملا مہنگائی کا اعتراف کرچکے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو اپنی پارٹی کے وزراء کے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پچاس فیصد اضافے کی تجویز پیش کی ہے اور حکومت سے کہا ہے کہ اس تجویز کو بجٹ تجاویز کا حصہ بنایا جائے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق اس وقت تنخواہوں اور پنشن میں 15 سے 35 فیصد اضافے کی خبریں زیرگردش ہیں ۔ یقینا یہ خبریں حوصلہ افزاء نہیں ہیں حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملک کی آدھی آبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ ملازمین کی تنخواہوں یعنی آمدنی سے متاثر ہوتی ہے۔ آمدنی میں اضافہ دراصل معیشت کا پہیہ درست انداز میں چلانے کے لئے ضروری ہے۔ ملازمین کی خوشحالی سے ملکی معیشت اور کاروبار پر مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی اداروں کے مالکان کو بھی اس بات کا پابند کرے کہ وہ اپنے ادارے کے ملازمین کی تنخواوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کرے اس طرح ملک میں کم سے کم اجرت کی مد میں مناسب اضافہ کرتے ہوئے اداروں کو اس پر عمل کرنے کا پابند بنائے۔
