اسلام آباد ( اے بی این نیوز )اے بی این نیوز کے سینئر رپورٹر بخت محمد یوسفزئی کے خلاف نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کی جانب سے انکوائری کے آغاز نے صحافتی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ میڈیا اور انسانی حقوق سے وابستہ افراد اس پیش رفت کو آزادیٔ صحافت پر دباؤ اور ایک انتقامی اقدام قرار دے رہے ہیں، جس کا مقصد مبینہ طور پر طاقتور سیاسی و کاروباری شخصیات سے متعلق تحقیقی رپورٹنگ کو روکنا ہے۔
ذرائع کے مطابق یہ انکوائری تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل سلیم رحمان کی شکایت کے بعد شروع کی گئی۔ صحافی برادری کا مؤقف ہے کہ اس نوعیت کی کارروائیاں سچ بولنے، حقائق سامنے لانے اور بااثر افراد پر تنقید سے روکنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ گرفتاریوں اور قانونی کارروائیوں کی دھمکیاں آزاد، غیر جانبدار اور حقائق پر مبنی صحافت کے لیے سنگین خطرہ بن رہی ہیں۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب بخت محمد یوسفزئی نے فیصل سلیم رحمان کی فیملی کی ملکیتی سگریٹ فیکٹری سے متعلق مبینہ ٹیکس چوری پر خبر نشر کی۔ اسی رپورٹ کے بعد ان کے خلاف انکوائری کا آغاز کیا گیا، جسے صحافتی حلقے رپورٹنگ کی پاداش میں دباؤ ڈالنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
اسی تناظر میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے رواں ماہ مردان میں یونیورسل ٹوبیکو کمپنی پر چھاپہ مارا تھا۔ ایف بی آر حکام کے مطابق یہ مردان میں اب تک کی سب سے بڑی غیر ڈیکلیئرڈ سگریٹ ساز مشینری تھی، جہاں خفیہ طور پر غیر ڈیکلیئرڈ پلانٹ اور مشینری چلائی جا رہی تھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ یومیہ پیداوار کی صلاحیت تقریباً 6,000 سے 7,000 کلوگرام تمباکو تھی جبکہ یومیہ آمدن کا تخمینہ ساڑھے چار کروڑ روپے تک لگایا گیا۔
ایف بی آر کے مطابق یونیورسل ٹوبیکو کمپنی مردان کی ایک معروف سیاسی و کاروباری فیملی کی ملکیت ہے۔ سابق رکن قومی اسمبلی حاجی نسیم الرحمان کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ہیں جبکہ تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل سلیم رحمان ان کے بھتیجے اور داماد ہیں، جس کے باعث معاملہ مزید حساس نوعیت اختیار کر گیا ہے۔
ماضی میں بھی اس خاندان پر ایسی کارروائیاں ہو چکی ہیں۔ اپریل 2019 میں ایف بی آر نے بونیر میں جعلی سگریٹ تیار کرنے والی ایک فیکٹری پر چھاپہ مارا تھا، جو حکام کے مطابق فیصل سلیم فیملی کی ملکیت تھی۔ اس وقت فیصل سلیم رحمان خیبر پختونخوا میں وائس چیئرمین بورڈ آف انویسٹمنٹ کے عہدے پر فائز تھے۔
صحافتی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ صحافیوں کو ہراساں کرنے کے بجائے انکوائریوں کو شفاف اور غیر جانبدار بنایا جائے اور آزادیٔ صحافت کا مکمل تحفظ یقینی بنایا جائے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ صرف ایک صحافی کا نہیں بلکہ پاکستان میں تحقیقی صحافت، ٹیکس چوری کے انکشافات اور طاقتور طبقوں کے احتساب سے جڑا ہوا ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔
مزید پڑھیں :ایک اور ریکارڈ قائم















