اسلام آباد ( اے بی این نیوز )پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر علی ظفر نے اے بی این نیوز کے پروگرام ’’سوال سے آگے‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ آئندہ سیاسی حکمت عملی سے متعلق اہم فیصلے محمود خان اچکزئی کریں گے جبکہ احتجاج اور مذاکرات کے حوالے سے ابھی حتمی وضاحت سامنے نہیں آئی۔ ان کے مطابق قانونی اور پارلیمانی راستہ اپنی جگہ جاری رہے گا اور پی ٹی آئی ہر فورم پر اپنے مطالبات اور حقوق کی بات کرتی رہے گی۔انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ان کا جائز مطالبہ ہے اور احتجاجی حکمت عملی کے تحت اپنے مطالبات اٹھاتے رہیں گے۔ جیل جانے یا نہ جانے سے متعلق تفصیلات ابھی طے نہیں ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی تحریک تحفظ آئین پاکستان کے پلیٹ فارم پر انحصار نہیں کر رہی جبکہ بانی پی ٹی آئی نے قیادت اور ہدایات علامہ راجہ ناصر عباس کو دے رکھی ہیں۔
بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے بغیر آئندہ لائحہ عمل کی مکمل وضاحت ممکن نہیں، تاہم حکومت اس معاملے پر مسلسل سخت مؤقف اپنائے ہوئے ہے اور حکومتی بیانیے کے مطابق اس وقت ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ انہوں نے بتایا کہ بشریٰ بی بی کی بہن اور بیٹی کو ملاقات کی اجازت دینے کا مسلسل مطالبہ کیا جا رہا ہے، حالانکہ انہوں نے کبھی سیاسی گفتگو نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے چیئرمین ہیں، اس لیے ملاقات میں گفتگو فطری عمل ہے اور صرف سیاسی بیان کے خدشے پر ملاقات روکنا درست نہیں۔ ان کے مطابق عدالتی راستہ بھی اپنایا گیا ہے اور احتجاج بھی جاری ہے، کل بھی احتجاج ہوگا اور ملاقات کے لیے درخواست دی جائے گی۔آئینی معاملات پر بات کرتے ہوئے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ اس وقت آئین میں ترمیم کرنا قبل از وقت اقدام ہے۔ الیکشن کمیشن کے سامنے ری الیکشن سے متعلق کیس تاحال زیر التوا ہے اور پہلے مرحلے میں الیکشن کمیشن کو اس کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ ان کے مطابق آئینی ترمیم کا راستہ الیکشنز کے درست ہونے سے مشروط ہے اور جب تک الیکشنز تسلیم نہیں ہوتے آئینی ترمیم ممکن نہیں، تاہم مستقبل میں آئین میں ترمیم کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشنز سے متعلق پیچیدگیاں آئین کی تفصیلات کا نتیجہ ہیں اور سیاسی جماعت کو چلانے کے لیے سادہ آئین زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ پارٹی فنڈز سے متعلق سوال پر انہوں نے بتایا کہ نمائندگان سے فنڈ جمع کرنے کے لیے خط جاری کیا گیا ہے، مگر وہ مالی معاملات پر براہ راست تبصرہ نہیں کر سکتے، اس حوالے سے آڈٹ ٹیم ہی واضح مؤقف دے سکتی ہے۔ اگر پارٹی مشکل میں ہو تو ارکان اپنی مدد آپ کے تحت تعاون کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں رضاکارانہ بنیادوں پر چلتی ہیں، کوئی ملازم نہیں ہوتا، اور پارٹی کے لیے مالی تعاون زبردستی نہیں بلکہ رضاکارانہ ہونا چاہیے۔ چندہ دینا لازمی نہیں، ہر فرد اپنی استطاعت کے مطابق فیصلہ کرے۔انہوں نے اعتراف کیا کہ پارٹی کی حکمت عملی میں کچھ غلطیاں تھیں جن کا جائزہ لے کر وائٹ پیپر تیار کیا جائے گا تاکہ مستقبل میں ایسی غلطیاں نہ ہوں۔ ان کے مطابق حالیہ الیکشن میں کارکردگی بہتر فارم میں نہیں تھی اور ہار کے بعد الزام تراشی کے بجائے غلطیوں کا تجزیہ زیادہ ضروری ہے۔
آخر میں سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ان پر اور دیگر رہنماؤں پر تنقید اور الزامات عائد کیے جا رہے ہیں، کچھ امیدواروں کی حمایت پر بھی سوالات اٹھے، تاہم وہ ذاتی طور پر سوشل میڈیا پر ہونے والی فضول باتوں سے متاثر نہیں ہوتے۔ پارٹی کی مضبوطی کے لیے تنقید کو تعمیری انداز میں لینا ناگزیر ہے۔
مزید پڑھیں :کیلیفورنیا بڑی تباہی سے بچ گیا، گرفتاریاں ،جا نئے تفصیلات















