اسلام آباد (اے بی این نیوز )فواد چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ سیاسی صورتحال اور تنظیمی مسائل پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے کوئی بڑی پیش رفت سامنے نہیں آئی اور دو ڈھائی سال سے پارٹی کی مجموعی صورتحال میں بنیادی فرق نہیں آیا۔
سیاسی حلقوں میں ایک بار پھر “مائنس ون” فارمولے کی باتیں زیرِ بحث ہیں، جس کا مطلب ہے کہ لیڈر سیاسی عمل سے الگ ہو جائے، لیکن پارٹی پر پابندی نہیں ہوتی۔ انہوں نے بتایا کہ پارٹی ٹکٹ کی اہمیت ووٹ بینک اور عوامی تاثر سے جڑی ہوتی ہے، لیکن الیکشن میں امیدوار نہیں بلکہ صرف بانی کے نام پر ووٹ پڑے۔
انہوں نے پی ٹی آئی کی تنظیمی کمزوریوں کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ 9 مئی کے بعد پارٹی کی قیادت بکھر گئی، تنظیم کمزور ہو گئی اور بانی نے نئی کمیٹیاں غیر معروف افراد پر مشتمل بنا دی ہیں، جس سے پارٹی کی پہچان متاثر ہو رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے پاس کوئی عملی سیاسی حکمت عملی موجود نہیں اور پارٹی بند گلی میں ہے۔
فواد چودھری نے اس بات پر زور دیا کہ سیاسی جدوجہد جذبات سے نہیں بلکہ منصوبہ بندی سے آگے بڑھتی ہے اور پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن سے بات چیت کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اثرورسوخ رکھنے والے سینئر رہنما جیلوں میں ہیں اور باقی غیر فعال ہو چکے ہیں۔ 21 رکنی کمیٹی بھی ختم کر دی گئی، جس سے تنظیمی خلا مزید بڑھ گیا ہے۔وہ اے بی این کے پروگرام “تجزیہ” میں گفتگو کررہے تھے انہوں نے کہا
صرف چند لوگ ہی بانی پی ٹی آئی سے بات کر سکتے ہیں اور بیرسٹر گوہر بھی براہِ راست بات نہیں کر سکتے۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ کوششیں جاری ہیں کہ کوٹ لکھپت کے قیدیوں کو ریلیف ملے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی سیاست میں اہم موڑ 9 مئی کو آیا، جس کے بعد پارٹی کی موجودہ مشکلات اور تنظیمی چیلنجز سامنے آئے۔
شوکت بسرا نے اے بی این کے پروگرام “تجزیہ” میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ 25 کروڑ عوام کھڑے ہیں اور 8 فروری کے انتخابات میں ہر قسم کے جبر کے باوجود 3 سے 4 کروڑ ووٹ پی ٹی آئی کو ملے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی نشان چھینا گیا اور کاغذاتِ نامزدگی تک روکے گئے، لیکن ریاستی جبر کے باوجود پارٹی نے دو تہائی اکثریت حاصل کی۔ بسرا نے مزید بتایا کہ پی ٹی آئی سے مخصوص نشستیں اور نو سیٹیں چھینی گئیں، اور بعد میں ری کاؤنٹنگ کے ذریعے کچھ سیٹیں واپس لی گئیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ عمران خان کو “مائنس ون” کرنے کی کوششیں جاری ہیں، اور مذاکرات کی متعدد کوششوں کے باوجود بانی تک رسائی نہیں دی گئی۔ شوکت بسرا نے زور دیا کہ 1973 کے آئین کے مطابق تمام ادارے اپنے اصل رول میں واپس جائیں اور قومی مفاہمت و قائدانہ ڈائیلاگ ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔
اسی پروگرام میں مسلم لیگ ن کے سینیٹر ناصر بٹ نے کہا کہ جو جماعت ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بن جائے، اس پر پابندی لگنی چاہیے، لیکن سیاسی جماعت پر پابندی نہیں، بلکہ ریاست مخالف سرگرمیوں پر قانون حرکت میں آ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جیل میں بیٹھا شخص ملک اور فورسز کے خلاف سرگرم ہے اور اس کے ثبوت موجود ہیں۔ کے پی میں حملوں میں ملوث گروہوں سے سیاسی جماعتوں کے روابط پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ سینیٹر ناصر بٹ نے مزید کہا کہ دنیا میں کوئی سیاسی جماعت اپنی فوج پر حملہ نہیں کرتی، اور کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ اور جھنڈے لہرانا ایک قومی سانحہ ہے۔
قادر مندو خیل نے پروگرام میں کہا کہ کسی پر براہِ راست حملہ یا غیر اخلاقی سیاست نقصان دہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کو اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی نے اسمبلی میں استعفے دے کر اپنا سیاسی اثر کم کر لیا، جبکہ الیکشن کمیشن کے معاملات میں شفافیت برقرار ہے۔
مزید پڑھیں :جنید صفدر کی دوسری شادی دلہن کون اور کب ہو رہی ہے،جا نئے















