اسلام آباد ( اے بی این نیوز ) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 27ویں آئینی ترمیم کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ترمیم بغیر مشاورت آگے بڑھائی گئی اور اس میں مزید ایسی تبدیلیاں شامل کی گئیں جو اتفاق رائے کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں جے یو آئی کے ارکان نے ترمیم کی کھل کر مخالفت کی۔
جے یو آئی کی مجلسِ شوریٰ کا دو روزہ اجلاس منعقد ہوا جس میں 27ویں آئینی ترمیم سمیت پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے دیگر قوانین کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایک سال قبل 26ویں آئینی ترمیم مشاورت کے ساتھ آگے بڑھی تھی، حکومت اور جے یو آئی کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے تھے، پی ٹی آئی کو بھی آن بورڈ رکھا گیا تھا، اور ہر پیشرفت سے سب کو آگاہ کیا گیا تھا۔ اس لیے 26ویں ترمیم کو متفقہ کہنا درست ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ جے یو آئی مسلسل اس بات کی نشاندہی کرتی رہی کہ ایسی کوئی ترمیم منظور نہ کی جائے جو اتفاق رائے کے ٹائٹل کو نقصان پہنچائے، لیکن 27ویں ترمیم میں جماعت کو نظرانداز کر دیا گیا جو پارلیمانی روایات اور جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔ ان کے مطابق اس طرزِ عمل سے حکومت کی سیاسی ساکھ بہتر نہیں ہوئی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت کو مکمل طور پر فعال کرنا ضروری ہے کیونکہ آئین قانون سازی کو قرآن و سنت کے مطابق کرنے کا پابند کرتا ہے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ وزیراعظم شہباز شریف سے انہیں اس طرزِ حکومتی رویے کی توقع نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت عدلیہ کو اپنے اختیار میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہے، جبکہ حالیہ قانون سازی میں کم عمر بچوں کے نکاح، ٹرانس جینڈر قوانین اور گھریلو تشدد سے متعلق قوانین بھی شامل ہیں جن پر مزید غور اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔جے یو آئی چیئرمین نے کہا کہ آئینی ترمیم جیسے قومی معاملات مشاورت اور وسیع اتفاق رائے کے بغیر آگے نہیں بڑھنے چاہئیں، ورنہ اس کے منفی سیاسی اثرات لازمی ہوں گے۔
مزید پڑھیں :علیمہ خان کی سربراہی میں پی ٹی آئی کارکنان کا اڈیالہ جیل کی طرف مارچ















