لندن ( اے بی این نیوز )مضمون میں عمران خان، بشریٰ بی بی اور پی ٹی آئی سے متعلق تنقیدی پہلو زیر بحث لا ئے گئے ہیں
▪ روحانیت کے ذریعے طاقت کی تلاش، محض سیاست نہیں
مضمون میں خان کو سیاسی کمزوری کے دور میں دکھایا گیا ہے، جہاں وہ “روحانی رہنمائی اور دنیوی کامیابی” کے لیے بشریٰ بی بی کی طرف رجوع کرتے نظر آتے ہیں،گویا اصلاحات نہیں بلکہ مذہبی تقدس میں لپٹی ہوئی سیاسی خواہش۔
▪ خان کی ذاتی زندگی اور گھر کے گرد توہماتی نوعیت کے معمولات
سابق گھریلو ملازمین کے مطابق روزانہ گائے کے گوشت، سیاہ جانوروں کے سر اور کلیجی کے مطالبات ہوتے، اور گوشت کو خان کے سر کے گرد گھمایا جاتا تھا تاکہ مبینہ “برے اثرات” دور کیے جائیں، جس سے قومی رہنما کے گرد توہم پرستی کا تاثر ملتا ہے۔
▪ بشریٰ بی بی کی حکومتی معاملات میں مداخلت
ایک کابینہ رکن کے مطابق ریاستی امور میں بشریٰ بی بی کی مداخلت مکمل تھی، جو ادارہ جاتی اور میرٹ پر مبنی حکمرانی کے پی ٹی آئی کے دعوے کی نفی کرتا ہے۔
▪ بنی گالہ کے اندر خوف اور رسائی پر سخت پہرہ
ڈرائیور اور عملہ بتاتا ہے کہ خان تک رسائی، پرواز کے اوقات، اور جہاز کے اڑان بھرنے کا فیصلہ بھی بشریٰ کی منظوری پر منحصر تھا، یوں ایک قومی رہنما کا شیڈول پیرانہ نظام کے تابع دکھایا گیا۔
▪ پی ٹی آئی کے اپنے سابق ممبران کی جانب سے کالا جادو کے الزامات
بڑے مالی معاون جہانگیر ترین کے متعلق بتایا گیا کہ انہوں نے بشریٰ بی بی کی جانب سے کالا جادو کے خدشات کا ذکر کیا، جس کے بعد انہیں نظر انداز کر دیا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی نہیں بلکہ اندرونی سرگوشیاں سیاسی فیصلے طے کرتی تھیں۔
▪ وفاداروں کا استعمال اور پھر بے دخلی
وفادار پارٹی کارکنوں اور ملازمین کو دکھایا گیا ہے کہ جیسے ہی وہ بشریٰ بی بی سے اختلاف کریں یا ان کے اثرورسوخ پر سوال اٹھائیں، انہیں فوراً باہر کر دیا جاتا ہے، جو پی ٹی آئی کے “انصاف اور وفاداری” کے بیانیے کے خلاف جاتا ہے۔
▪ فوجی سرپرستی کے ذریعے عروج، “آؤٹ سائیڈر” کے نعرے کی نفی
مضمون واضح کرتا ہے کہ خان کی 2018 کی جیت کو وسیع پیمانے پر فوج اور آئی ایس آئی کی مدد کا نتیجہ سمجھا گیا، جو اس دعوے کو کمزور کرتا ہے کہ وہ صرف عوامی حمایت اور اسٹیبلشمنٹ مخالف جدوجہد سے اقتدار میں آئے۔
▪ آئی ایس آئی کا بشریٰ سے منسلک پیروں کے ذریعے خان کی رائے سازی کا دعویٰ
ایک نظریہ پیش کیا جاتا ہے کہ آئی ایس آئی معلومات بشریٰ بی بی سے جڑے پیروں کو دیتی تھی، جو انہیں “رؤیا” یا روحانی اشاروں کے طور پر خان تک پہنچاتے، جس سے ان کی سیاسی بصیرت اور خودمختاری پر سوال اٹھتا ہے۔
▪ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی برطرفی کو اصولی نہیں بلکہ بچاؤ کا اقدام قرار دینا
خان کو دکھایا گیا ہے کہ انہوں نے بشریٰ بی بی کی مبینہ کرپشن کی رپورٹ کے بعد آئی ایس آئی چیف کو ہٹایا، جس سے ان کا “مافیاز کے خلاف” بیانیہ خودغرضانہ دکھائی دیتا ہے۔
▪ معیشت اور فلاح پر کیے گئے وعدوں کی عدم تکمیل
مضمون خان کے لاکھوں گھروں اور نوکریوں کے وعدوں کو یاد دلاتا ہے، پھر معاشی ناکامی اور خود ان کے اس اعتراف کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ایک مدت میں تبدیلی ممکن نہیں، یوں “نیا پاکستان” کا وعدہ کمزور پڑتا ہے۔
▪ کرپشن کیسز اور “صاف دامن” امیج کا تضاد
مہنگے تحائف اور القادر ٹرسٹ جیسے معاملات کی تفصیل، اور ان کیسز میں خان اور بشریٰ بی بی کو دی گئی سزاؤں کا ذکر ان کے اینٹی کرپشن امیج پر براہِ راست ضرب ہے۔
▪ شخصی پرستی؛ اداروں پر مبنی پارٹی نہیں
پی ٹی آئی کو دکھایا گیا ہے کہ وہ ایک “اخلاقی حاکم” اور ان کی اہلیہ کے گرد گھومتی ہے، فیصلے خوابوں اور ذاتی پسند پر ہوتے ہیں، نہ کہ پارٹی کے ادارہ جاتی طریقہ کار کے مطابق۔
▪ پرتشدد احتجاج اور عسکری تنصیبات پر حملے
مضمون بتاتا ہے کہ خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کارکنوں نے فوجی تنصیبات اور تاریخی علامتوں پر حملے کیے، جس سے تحریک کو ایسے گروہ کے طور پر دکھایا گیا ہے جو سرخ لکیریں عبور کرتا ہے مگر دعویٰ اداروں کے دفاع کا کرتا ہے۔
▪ بشریٰ بی بی کے گرد جنس پرستانہ بیانیے کے باوجود حقیقی سیاسی اثرورسوخ
اگرچہ مضمون میں ان پر misogyny کا ذکر ہے، پھر بھی انہیں ایک غیر منتخب مگر طاقتور شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو شفاف، قانون پر مبنی سیاست کے پی ٹی آئی بیانیے سے متصادم ہے۔
▪ خان کو معصوم، کمزور فیصلہ ساز کے طور پر دکھانا
دوستوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ خان بھولے بھالے ہیں اور بشریٰ بی بی کے ساتھ جڑے تنازعات سے بے خبر رہتے ہیں، جس سے وہ ایک ایسے رہنما دکھائی دیتے ہیں جو روحانی اور ادارہ جاتی اثرات کا آسان شکار بنتے ہیں، باوجود اپنے سخت گیر بیانیے کے۔
مزید پڑھیں :افغان کشیدگی،روس کی بڑی ثالثی کی پیشکش















