اہم خبریں

سیلاب کو مواقع میں بدلنا: پاکستان کے لیے ایک بااعتماد مستقبل

تحریر: اریج ریاض
سن 2022 کے تباہ کن سیلاب اور اب 2025 کے سیلاب کوئی الگ تھلگ واقعات نہیں ہیں۔ یہ ہمارے بدلتے ہوئے موسم کی ایک بار بار آنے والی حقیقت ہیں ایسی حقیقت جس کا پاکستان اب محض ایمرجنسی امداد اور تعمیرِ نو سے مقابلہ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہر آفت لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیتی ہے، زراعتو خوراک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ انفراسٹرکچر برباد کر دیتی ہے، اور ترقی کو کئی سال پیچھے دھکیل دیتی ہے۔

لیکن اگر سیلاب کو مختلف انداز میں سنبھالا جا سکے محض تباہی نہیں بلکہ تجدید کے مواقع کے طور پر توکیا ہوگا؟پاکستان کے پالیسی ساز دوراندیش پالیسی سے موسمیاتی تبدیلی، اربن فلڈن اور دریاؤں میں سیلاب کی تباہ کاریوں کو بہتری کے مواقع میں بدل سکتے ہیں۔ میں پاکستان کے لیے ایک موسمیاتی لچکدار سیلابی حکمتِ عملی کی تجویز پیش کرتی ہوں: ایسا منصوبہ جو سیلابی پانی کو پانی کے تحفظ، غذائی تحفظ، اور معاشی ترقی کے ایک طویل المدتی اثاثے میں بدل سکتا ہے۔

پانی کے تحفظ کے لیے سیلابی جھیلیں
پہلا قدم یہ ہے کہ ہم ان اضافی پانیوں کے ہائیڈرولوجیکل حجم کو ماپیں اور نقشہ بنائیں جو ہر سال ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ ان اعداد و شمارکی بنیاد پر، پاکستان اپنے شہروں اور دریاؤں کے کناروں پر انجینیئرڈسیلابی جھیلیں تعمیرکر سکتا ہے تاکہ زائد برساتی پانی اور سیلابی پانی کو محفوظ کیا جا سکے۔یہ جھیلیں کنٹرول شدہ ذخائرکا کردار ادا کریں گی— کمیونٹیزکو تباہی سے بچاتے ہوئے ایک اسٹریٹجک آبی وسیلہ مہیا کریں گی۔ مناسب فلٹریشن پلانٹس کے ساتھ، یہ پانی سال بھر شہری آبادی کو محفوظ پینے کا پانی فراہم کر سکتا ہے۔ ایسے وقت میں جب زیرِ زمین پانی تیزی سے کم ہو رہا ہے، یہ پاکستان کے شہری پانی کے بحران کا حل ثابت ہو سکتا ہے۔یہی ذخائر آبپاشی کے نظام سے بھی منسلک کیے جا سکتے ہیں، نہری بہاؤکو سپورٹ کرتے ہوئے اور زیرِ زمین پانی کے حد سے زیادہ استعمال کوکم کرتے ہوئے۔ اس طرح فصلوں کی حفاظت ہوگی، دیہی روزگار مستحکم ہوں گے، اور قومی سطح پر بڑھتی ہوئی پانی کی کمی کوکسی حد تک روکا جا سکے گا۔

موسمیاتی ہم آہنگ غذائی نظام کی طرف رخ
سیلابی جھیلیں پاکستان کے غذائی نظام میں ساختی تبدیلی کے دروازے بھی کھولتی ہیں۔ پولٹری سیکٹر جو ہماری خوراک پر حاوی ہے، درآمد شدہ اجزاء فیڈ اور زرعی خام مال پر بہت زیادہ انحصارکرتا ہے، اور اکثر صحت سے متعلق خدشات بھی اٹھاتا ہے۔سیلاب سے ہم آہن۔ سیلابی جھیلوں میں مچھلی اور جھینگا فارمن ہوسکتی ہے۔ پیشہ ورانہ انتظام کے تحت، یہ فارم جدید سپلائی چینز میں شامل کیے جا سکتے ہیں، تاکہ مچھلی اور جھینگا کو پراسیس اور عالمی معیارکے مطابق پیک کرکے پاکستان کی مقامی اور بین الااقوامی مارکیٹ میں مناسب قیمت پر فروخت کرنی چاہیے۔ حکومت اگر ان جھیلوں کے قریب آبی زراعت کے قیام پر سبسڈی یا مراعات دے، توکسانوں اورکاروباری افراد کو مچھلی اور جھینگا کی پیداوار میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے۔

یہ حکمتِ عملی دو بڑے نتائج دے گی:
پاکستان کی غریب آبادی کے لیے سستی، پروٹین سے بھرپور صحت بخش خوراک فراہم ہوگی، جس سے بھوک اور غذائی کمی کو دورکیا جا سکتا ہے۔ایک مسابقتی آبی زراعتی برآمدی صنعت پروان چڑھے گی، جو انتہائی ضروری زرِ مبادلہ پیداکرے گی۔یعنی، شہروں اور دریاؤں کے نزدیک قائم کی گئی جھیلوں میں مچھلی اور جھینگا کی پیداوار نہ صرف سماجی تحفظ، عوام کی صحت بلکہ معاشی ترقی کا بھی انجن بن سکتی ہے ۔

آج سرمایہ کاری کریں تاکہ کل بچت ہو
تنقید کرنے والے پوچھیں گے: کیا پاکستان اتنا بڑا منصوبہ برداشت کر سکتا ہے؟ اصل سوال یہ ہے: کیا پاکستان اس کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟ہر سیلاب اربوں ڈالرکے انفراسٹرکچرکو تباہ کر دیتا ہے، اور پیداواری صلاحیت ختم کر دیتا ہے۔ اگر ہم ان اخراجات کا ایک چھوٹا حصہ لچکدار انفراسٹرکچر جیسے سیلابی جھیلوں اور آبی زراعتی نظاموں میں لگائیں تو یہ تباہی کو روک سکتا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے — جیسے ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اورگرین کلائمیٹ فنڈ — پاکستان کو اس منتقلی میں مدد دے سکتے ہیں، جو عالمی موسمیاتی ترجیحات سے ہم آہن ہے۔

عالمی وعدوں سے ہم آہنگی
یہ تجویز پاکستان کے اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف کے ایجنڈا 2202 پر عمل درآمد کو بھی تقویت دے گی۔ایس ڈی جی :2 بھوک کا خاتمہ )مچھلی کے ذریعے سستی خوراک(ایس ڈی جی :6 صاف پانی اور صفائی ستھرائی )شہری پانی کے تحفظ کے لیے(ایس ڈی جی :8 بہتر روزگار اور معاشی ترقی )آبی زراعت ، مچھلی اور جھینگا کی پیداوار(ایس ڈی :11 پائیدار شہر اورکمیونٹیز )سیلاب سے تحفظ(ایس ڈی جی :11 موسمیاتی عمل )شدید موسمی حالات سے مطابقت(یوں پاکستان نہ صرف اپنی عوام کو تحفظ دے گا بلکہ موسمیاتی لچک کی جدت میں اس خطہ میں قیادت بھی دکھائے گا۔

بصیرت کی ضرورت
پاکستان طویل عرصے سے تباہی اور ریلیف کے ایک چکر میں جکڑا ہوا ہے۔ ہمیں بصیرت، نظم و ضبط اور سیاسی عزم کی ضرورت ہے تاکہ ہم سیلاب کو تباہ کن قوت کے بجائے ایک منظم وسیلہ بنا سکیں۔اگر صحیح طریقے سے قابو پایا جائے تو سیلاب واقعی ایک بھیس میں رحمت ثابت ہو سکتا ہے۔شہروں اور دریاؤں کے نزدیک واقع سرکاری اراضی پر بھی یہ جھیلیں قائم کی جا سکتی ہں جس سے اخراجات میں کمی آئے گی۔ ہمارے شہروں کے لیے پانی، کھیتوں کے لیے آبپاشی، زیرِ زمین پانی کو ری چارج کرنے کا ذریعہ، اور عوام کے لیے خوراک۔ ہمارے سامنے انتخاب واضح ہے: یا تو ہم بار بارکے سیلابوں میں ڈوبتے رہیں، یا اس تجویزکی روشنی میں سرمایہ کاری کرکے اپنی معیشت کو درپیش خطرات پر قابو پالیں۔

اب فوری فیصلے اور عمل کرنے کا وقت ہے۔
اریج ریاض نے ہارورڈ یونیورسٹی )امریکہ( اور لندن بزنس اسکول )برطانیہ( سے تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اقوام متحدہ، ورلڈ بنک اور برطانیہ کے فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈویلپمنٹ آفس کے پراجیکٹس پر خدمات انجام دیں۔ اس وقت وہ برطانیہ کی یونیورسٹی میں تدریس سے وابستہ ہیں

متعلقہ خبریں