اہم خبریں

پی ٹی آئی کو بالکل دیوار کے ساتھ لگادیا گیا ، سہیل آفریدی لانگ مارچ کرسکتے ہیں، فواد چودھری

اسلام آباد (  اے بی این نیوز      )فواد چودھری نے اے بی این نیوز کے پروگرام سوال سے آگے میں گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ پی ٹی آئی کو بالکل دیوار کے ساتھ لگادیا گیا ہے۔ اگلے 75دنوں میں کوئی مصروفیت نہ ہوئی تو سہیل آفریدی لانگ مارچ کرسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے کارکنوں کی مشکلات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ حکومت کی پالیسیاں پی ٹی آئی کو دیوار سے لگا چکی ہیں۔
پی ٹی آئی کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں۔ اگر انگیجمنٹ نہ ہوئی تو سہیل افریدی بلانگ مارچ اسلام آباد لے سکتے ہیں۔ اگر انگیجمنٹ نہ ہوئی بانی پی ٹی آئی نیشنل اسمبلی سے استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ حکومت احتجاج روکنے کے لیے ہائی ہینڈڈ اقدامات اختیار کر سکتی ہے۔ پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت اگلے چند ماہ میں بلند رہنے کا خدشہ ہے۔
پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت بہت بلند، حکومت کی کامیابیاں اندر منتقل نہیں ہو رہی۔ حکومت کو پہلا قدم اٹھانا ہوگا، پی ٹی آئی بھی تعاون کے لیے تیار ہے۔ شاہ محمود قریشی اور جیل قیادت کی ملاقات ،ماحول ڈیفیوز کرنے کی کوششیں ہے۔
ریلیز بانی موومنٹ کی تیاری، لانگ مارچ اور ٹینشن کم کرنے کی حکمت عملی ۔ شاہ محمود قریشی سے 45 منٹ ملاقات، اہم امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ پی ٹی آئی قیادت نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے رابطے شروع کر دئیے۔ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کا ویژن مضحکہ خیز ہے۔ موجودہ قیادت کہتی ہے کہ ن لیگ یا پی پی سے بات نہیں کرنی، ٹی ٹی پی سے کرسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بعض بیگناہ کارکن اور لیڈرشپ کو حکومت کی طرف سے ریلیف ملنا چاہیے۔ ٹمپریچر کم کرنے کیلئے حکومت کی پیشکش پر بات چیت کا ماحول تیار کرنے کی کوشش ہے۔
کے پی کی لیڈرشپ اور مرکزی قیادت مل کر مذاکرات کو آگے بڑھائیں ۔ موجودہ سیاسی جھگڑے کے باوجود بات چیت کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ شاہ محمود قریشی اور دیگر قیادت مذاکرات کے لیے مکمل ورکنگ کر رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کے علاوہ محمود الرشید اور اعجاز چودھری کا رول بہت اہم ہے۔ ان دولوگوں کا بہت تجربہ ہے سیاست کا اور ان کی تعلقات بھی ہیں۔

فیصل چودھری نے اے بی این نیوز کے پروگرام سوال سے آگے میں گفتگو کرتے ہو ئے کہا پارلیمنٹ کا بنیادی کام قانون سازی ہے، مگر یہ عوامی نمائندہ پارلیمنٹ نہیں۔ اس حکومت نے آئینی ترامیم کے منشور پر الیکشن نہیں لڑا۔ 26ویں ترمیم میں عدلیہ کے اختیارات متاثر کیے گئے۔ اب ایک سپرا پارلیمنٹ طرز کی آئینی عدالت بنائی جا رہی ہے۔
آئینی عدالت بننے سے عام عدالتوں کا کردار کم ہو جائے گا۔ ملک میں عدالتیں اپنے احکامات پر عملدرآمد کرانے سے قاصر ہیں۔ موجودہ پارلیمنٹ میں نہ بحث ہوتی ہے نہ قانون سازی پر شفافیت ہے۔
قانون سازی کے مسودے پبلک ڈومین میں نہیں لائے جاتے۔ آئینی ترامیم پر وکلا، میڈیا یا عوام کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
این ایف سی میں تبدیلی سے پہلے صوبوں سے مشاورت نہیں کی گئی۔ 191 آرٹیکل ختم کرنے کا مطلب عدالتی اختیارات محدود کرنا ہے۔ 243 میں ترمیم سے سی ڈی ایس کے عہدے پر اثر پڑے گا۔
دنیا طے شدہ اصولوں اور آئین کے مطابق چلتی ہے۔ یہاں آئین کے مطابق کوئی کام نہیں ہو رہا۔
حکومت ڈنڈا ٹولی کے انداز میں کام کر رہی ہے۔ ایسے اقدامات دیرپا ثابت نہیں ہوں گے۔ ملک میں نہ انڈسٹری چل رہی ہے، نہ روزگار کے مواقع ہیں۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری ختم ہو چکی ہے۔ حکومت نے اب تک کوئی عملی کارکردگی نہیں دکھائی۔ آنے والے دنوں میں حکومت سیاسی سپیس کسی کو دینا نہیں چاہتی۔
سیاسی خوف اور بے یقینی نے نظام کو جام کر دیا ہے۔
شرجیل میمننے کہا کہ
شرجیل میمن نے کہا کہپیپلز پارٹی قیادت آئینی ترمیمی کمیشن لانے کی تیاری کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں نے مجوزہ کمیشن پر تحفظات کا اظہارکیا۔ پارٹی ہمیشہ اجتماعی فیصلے کمیٹی کے ذریعے کرتی ہے۔ پارٹی روایت رہی ہے کہ ہر فیصلہ مشاورت سے لیا جاتا ہے۔ حتمی فیصلہ پارٹی چیئرمین کریں گے، مشاورت جاری ہے۔
پیپلز پارٹی آئینی ترمیمی کمیشن پر مشاورت کے عمل میں مصروف ہے۔ پارٹی کے تمام فیصلے مرکزی کمیٹی کی مشاورت سے کیے جاتے ہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا کہ 27ویں ترمیم پر تفصیلی مشاورت ہوگی۔ پیپلز پارٹی نے 27ویں آئینی ترمیم پر تاحال باضابطہ مؤقف نہیں دیا۔
آئینی پیکیج سے متعلق ہر شق پر تفصیلی ڈسکشن کی جائے گی۔ 27ویں آئینی ترمیم سے متعلق تجاویز میں 5آرٹیکلز کی تبدیلی زیرِ غورہیں۔ اٹھارویں ترمیم سے متعلق بھی تجاویز سامنے آنے کی اطلاعات ہیں۔
اٹھارویں ترمیم کے خاتمے یا خودمختاری کی ریورسل پر کوئی اتفاق نہیں ہوگا۔ آئینی ترامیم پر پارٹی کی بیٹھک میں تفصیلی بات چیت ہوگی۔
ذرائع: حتمی لائحہ عمل پارٹی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی طے کرے گی۔

اختیار ولی خان نے کہاکہ میں نے کبھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ 27ویں آئینی ترمیم آئے گی۔ 27ویں ترمیم کے بعد 28ویں آئینی ترمیم کا امکان بھی موجود ہے۔ پارلیمنٹ کا بنیادی کام قانون سازی ہے، خامیوں کو دور کرنا ہے۔ قانون سازی نہ کریں تو پارلیمنٹ کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ 26ویں ترمیم کے بعد بھی مزید اصلاحات لانا ضروری ہیں۔
قومی مسئلے حل کرنے کیلئے پارلیمنٹ کو فعال قانون سازی روکنے کی اجازت نہیں۔ 27ویں آئینی ترمیم کی پلاننگ کافی عرصے سے جاری تھی۔ پیپلز پارٹی صرف اتحادی نہیں بلکہ ذمہ دار اتحادی ہے۔
حکومتی اور پیپلز پارٹی قیادت میں مکمل ہم آہنگی موجود ہے۔ آئینی عدالت کے قیام پر پارلیمانی سطح پر مشاورت ہوتی رہی۔ جو کمی رہ گئی تھی، وہ باہمی مشاورت سے دور کرنے کی کوشش کی گئی۔
پارلیمانی ڈسکشن میں تمام اہم آئینی معاملات زیر غور آئے۔
یہ کہنا درست نہیں کہ پیپلز پارٹی کو الگ سے تیار کیا گیا۔ فیصل چوہدری کے مطابق بلاول بھٹو کے ٹویٹ سے عندیہ مل چکا تھا۔ ذرائع کے مطابق آئینی ترمیم پیر تک سینیٹ میں پیش کیے جانے کا امکان۔
پارلیمنٹیرینز کا کام قانون سازی ہے، سڑکیں یا نالیاں بنانا نہیں۔ اگر پارلیمنٹ کو غیر نمائندہ کہا جائے تو پھر پچھلی حکومت بھی غیر آئینی قرار پائے گی۔
اگر پچھلی حکومت غیر آئینی تھی تو اس کے تمام فیصلے کالعدم قرار دینے ہوں گے۔
ایسے الزامات ثبوت کے بغیر صرف سیاسی بیانیہ ہیں۔ اگر اعتراض ہے تو سپریم کورٹ یا الیکشن ٹربیونل سے رجوع کیا جائے۔ سیاسی تنقید صرف بیک گراؤنڈ میوزک بن چکی ہے، تین سال سے یہی چل رہا ہے۔
مزید پڑھیں :چینی کا بحران بھی سنگین صورت اختیار کر گیا،جا نئے فی کلو قیمت کہاں تک پہنچ گئی

متعلقہ خبریں