اہم خبریں

عمران خان کو کون ریلیف دلوا سکتا ہے، فواد چوہدری نے نام بتا دیا ،جا نئے

اسلام آباد (  اے بی این نیوز   ) سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری بے کہا ہے کہ فی الحال کسی نئے بریک تھرو کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ مولانا فضل الرحمان تحریک انصاف کی لیڈرشپ سے مطمئن نہیں۔ تحریک انصاف کے اندازِ گفتگو پر مولانا فضل الرحمان کو تحفظات ہیں۔
مولانافضل الرحمان سمجھتے ہیں پی ٹی آئی قیادت سنجیدہ مذاکرات نہیں کر رہی۔ سیاسی سطح پر فی الحال کوئی نئی پیش رفت متوقع نہیں۔ علی امین گنڈاپور کے جانے سے ماحول کچھ بہتر ہوا ہے۔
جے یو آئی اور پی ٹی آئی میں پہلے رابطہ ہوتا تو بات آگے بڑھ سکتی تھی۔
اسد قیصر کوششیں کر رہے ہیں مگر اب بھی اعتماد کا فقدان ہے۔ مولانا این جی او نہیں چلا رہے، انہیں کے پی حکومت میں کردار دینا ہوگا۔ بلاول بھٹو کی بھی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات ہو چکی ہے۔
پی ٹی آئی کے پاس فی الحال کوئی واضح مذاکراتی حکمت عملی نہیں۔
سلمان اکرم راجا کے رویے کے بعد مولانا نے پی ٹی آئی سے فاصلہ رکھا۔ 27ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں ملاقات کو دیکھا جا رہا ہے۔ سنجیدہ مذاکرات کے لیے وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخوا کو خود جانا ہوگا۔
اسد قیصر، شہرام ترکئی اور جنید اکبر کا گروپ متحرک ہو گیا۔
مولانا فضل الرحمان کو اپوزیشن الائنس کی قیادت دینی چاہیے اے بی این نیوز کے پروگرام تجزیہ میں گفتگو کرتے ہو ئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن میں اتحاد سے سیاسی عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔
محمود خان اچکزئی کی نامزدگی پر تحریک انصاف میں بھی اختلافات ہیں۔
ایاز صادق کے ریمارکس کے بعد اچکزئی کی بطور لیڈرِ اپوزیشن نامزدگی مشکل ہے۔ سپیکر کو ارٹیکل 62، 63 کے تحت تقریریں دیکھنے کا اختیار نہیں۔ پی ٹی آئی کو قومی سیاست کرنی چاہیے، فرقہ وارانہ نہیں۔
پارٹی سے لوگ ٹھڈے مکے مار کر نکالے گئے، اب خالی میدان بچا ہے۔ پی ٹی آئی وفاقی جماعت ہے، چاروں صوبوں میں ووٹ بینک رکھتی ہے۔ اچکزئی صاحب کو اکثریت نے نامزد کیا تو سپیکر نہیں روک سکتے۔
سپیکر کی جانب سے اچکزئی کی راہ میں رکاوٹ زیادتی ہو گی۔ مولانا کی قیادت میں اپوزیشن الائنس سے سیاسی فضا بہتر ہو سکتی ہے۔ یہ الائنس 6ماہ پہلے بنتا تو صورتحال مختلف ہوتی۔ مولانا فضل الرحمان، محمود اچکزئی سے زیادہ مؤثر اپوزیشن لیڈر ثابت ہو سکتے ہیں۔
اگر مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی کی حمایت سے اپوزیشن لیڈر بنیں تو بڑا بریک تھرو ہو گا۔ بانی پی ٹی آئی کیلئے ریلیف دلانے میں مولانا فضل الرحمان کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے اندر اس وقت سخت گروپنگ اور انتشار کی فضا ہے۔
سہیل آفریدی کے آنے سے پارٹی کے اندرتناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ تحریک انصاف میں ہر گروپ اپنی الگ نومینیشن دے رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس احتجاج کے سوا کوئی واضح سیاسی حکمتِ عملی نہیں۔
محمود خان اچکزئی کے 74 ووٹ ہونے کے باوجود اپوزیشن قیادت پر اتفاق مشکل ہے۔ پی ٹی آئی کے اندر انتشار نے اپوزیشن کے الائنس کو کمزور کیا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق مولانا کی قیادت میں اپوزیشن کو نئی سمت مل سکتی ہے۔
افغانستان کے ساتھ بات چیت کے امکانات ختم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ افغان طالبان ٹیبل ٹاک پر آنے کو تیار نہیں، کوئی گارنٹی دینے کو بھی نہیں۔ پاکستان کے پاس اب افغانستان پر پالیسی کے محدود آپشنز باقی رہ گئے ہیں۔
گزشتہ دو ڈھائی برس میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال پر ماہرین حیران نہیں ،ردِعمل متوقع تھا۔ واضح نہیں کہ حکومت افغانستان پالیسی پر سینئر ماہرین سے مشاورت کر رہی ہے یا نہیں۔
ڈپلومیسی کا کردار غائب، سارا فوکس عسکری زاویے پر نظر آتا ہے۔ ڈیفنس منسٹر کے بیانات تو آ رہے ہیں مگر فارن آفس خاموش ہے۔ افغانستان پر جامع سفارتی پالیسی کا فقدان تشویشناک ہے۔
خواجہ آصف کا حالیہ ٹویٹ واضح اشارہ ہے ،پاکستان کسی بڑی تبدیلی کی جانب بڑھ رہا ہے۔
پاکستان کے مشرقی اور مغربی دونوں سرحدی محاذ خطرناک حد تک کشیدہ ہیں۔ ایک ساتھ دو فرنٹس پر دباؤ ،پاکستان کے لیے نیا سٹریٹجک چیلنج۔
مزید پڑھیں :عمران خان سے ملاقات کا معاملہ،سہیل آفریدی کا اہم ترین فیصلہ،جا نئے کیا

متعلقہ خبریں