اسلام آباد(اے بی این نیوز ) سابق سفیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ دوحہ معاہدے میں واضح طور پر طے ہوا تھا کہ افغانستان کی سرزمین کسی گروہ کو پاکستان یا دیگر ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اسی معاہدے کے تحت سرحدی علاقوں اور افغانستان کے اندر ہر جگہ نگرانی اور کنٹرول کو مضبوط کیا جانا ضروری ہے۔
سردار مسعود خان نے بتایا کہ پاکستان دہشت گردی کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے کے لیے مستقل سرویلنس اور انٹیلی جنس رابطوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ سرحدی اور اندرونی تربیت گاہوں کی نشاندہی بھی جاری ہے جبکہ بلیک مارکیٹ سے جدید اسلحے کی بازیابی کے لیے کارروائیاں تیز کی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے چھوڑے گئے اسلحے کی فراہمی اور ٹی ٹی پی کے ہاتھ لگنے والے ہتھیاروں کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان پر حملوں کی روک تھام کے لیے فوری ردعمل اور مؤثر حفاظتی اقدامات ناگزیر ہیں۔
سابق سفیر نے بتایا کہ استنبول مذاکرات کے دوران پیش آنے والے واقعے میں پانچ پاکستانی جوان شہید ہوئے ، جو اس بات کی یاد دہانی ہے کہ امن کے لیے مؤثر اقدامات اور علاقائی تعاون انتہائی ضروری ہے۔ ان کے بقول افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اب بھی برقرار ہے، اور جنگ بندی کے مؤثر میکنزم کے بغیر امن کا خواب پورا نہیں ہوگا۔
انہوں نے افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کو قابو کرنے کے حوالے سے کمزور کمٹمنٹ پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ سردار مسعود کے مطابق طالبان کے اندرونی اختلافات اور گروہی دباؤ کی وجہ سے مذاکرات بار بار تعطل کا شکار ہو رہے ہیں، خاص طور پر استنبول، قطر اور دوحہ مذاکرات میں پیش رفت رک گئی ہے۔وہ اے بی این نیوز کے پروگرام تجزیہ میں گفتگو کرتے ہوئےرہے تھے انہوں نے کہا کہ بھارت کے بڑھتے ہوئے ممکنہ کردار اور طالبان کے اندر سرمایہ کاری اور اثر و رسوخ پر بھی انہوں نے واضح تشویش ظاہر کی۔
مزید پڑھیں :تحریک عدم اعتماد کب پیش ہو گی،تاریخ آگئی،جا نئے















