اہم خبریں

احتجاج کی حکمت عملی پر رہنماؤں میں اختلافات موجود ہیں، حامدخان

اسلام آباد ( اے بی این نیوز      )سینئررہنماپی ٹی آئی حامدخان نے کہا ہے کہ نئی قیادت سہیل آفریدی سے امید ہے کہ اختلافات ختم ہوں گے۔ احتجاج کی حکمت عملی پر رہنماؤں میں اختلافات موجود ہیں۔
ملک میں بڑھتی زیادتیوں اور سختیوں پر عوام میں تشویش پائی جاتی ہے۔ پرامن احتجاج آئین کے دائرے میں رہ کر کیا جائے گا۔ حکومتی پالیسیاں بری طرح ناکام، عوامی ردعمل میں اضافہ ہوا۔
قوم کے سامنے حقائق لانا وقت کی ضرورت بن چکا ۔ احتجاجی تحریک کو منظم انداز میں آگے بڑھانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ سردی گرمی کی پرواہ کیے بغیر عوام سڑکوں پر نکلیں گے۔
پچھلے چند سالوں سے قوم پر جبر اور ظلم میں اضافہ ہوا۔ پی ٹی آئی قیادت پر جھوٹے مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں۔ عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے الزامات سامنے آئے۔
عوام پر ظلم و تشدد کے سلسلے نے نئی حدیں پار کر لیں۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورتحال بگڑ گئی۔ حکومت دہشتگردی پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہے۔
قوم کے بنیادی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اےبی این نیوزکےپروگرام’’ڈیبیٹ@8‘‘میں گفتگو کرتے ہو ئے کہا ہے کہ سیکڑوں جعلی انرولمنٹس کروا کر ووٹنگ میں دخل اندازی کی کوشش کی گئی۔
500نئے انرولمنٹس نے انتخابی نتیجہ بدلنے میں کردار ادا کیا۔ ججز اور وکیلوں کے انتخابات میں مداخلت اور دباؤ بڑھ گیا۔ ادارے عوامی تحفظ کے بجائے سیاسی مقاصد میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
انتظامیہ پوری طرح ناکام، آئینی حقوق سلب کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ 26ویں ترمیم کا بیانیہ عام کیا جا رہا ہے، 27ویں ترمیم کی تیاریاں بھی زیر بحث ہے۔
عدالتی وکلا کو نشانہ بنا کر جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کی مہم جاری ہے۔
قانون کے نفاذ اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ تحریک کا آئین کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے۔ پی ٹی آئی یا وکلا اگر لیڈ کریں گے تو عوام بھی ساتھ ہوں گے۔
حق، آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے عوام متحد ہوں گے۔ سیمینارز، جلسے اور جوڈیشل اجلاس موومنٹ کا حصہ ہوں گے۔ مختلف شہروں میں آئینی شعور اجاگر کرنے کیلئے تقریبات کا سلسلہ جاری ہے۔
موومنٹ عارضی طور پر نہیں رکی، جلد نیا شیڈول سامنے آئے گا۔ قوم کو آئینی حقوق کے لیے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا ہوگا۔

وفاقی وزیر برائےامورکشمیرانجینئرامیرمقام نے اےبی این نیوز کےپروگرام ’’ڈیبیٹ@8‘‘میں گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ میں حکومت کا حصہ رہا، بطور فیڈرل منسٹر خدمات انجام دیں۔ پی ٹی آئی پر پارلیمنٹ بلیک آؤٹ کرنے اور اداروں پر دباؤ کے الزامات ہیں۔
پی ٹی آئی نے120دن دھرنادیا،کون سی حقیقی تبدیلی آئی۔ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پرنوازشریف کونااہل کیاگیا۔ عام لوگوں کو مشکلات میں ڈال کر پی ٹی آئی نے کیا حاصل کیا؟ خیبر پختونخوا کے عوام 12، 13 سال سے مشکلات کا شکار ہیں۔
مسافروں اور سامان کی آمد ورفت پر پابندیوں سے معیشت متاثر ہوئی۔ امن و امان کی خرابی سے روزگار اور کاروبار بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ جمہوری اور آئینی راستوں سے حل تلاش کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ہم ہر پرامن راستے اور جمہوری حل کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
قومی مفاد میں شفافیت، قانون کی بالادستی اور عوامی فلاح اولین ترجیح ہو گی۔ دہشتگردی کیخلاف مشترکہ پالیسی ضروری، سب فریقوں کو شمولیت کی پیشکش کرتےہیں۔ عملی اقدامات پر اتفاق ضروری، صرف بیان بازی سے کام نہیں چلے گا۔
جرگوں کو ویلکم مگر قابل عمل حل اور واضح روڈ میپ مانگا جائے۔ جمہوری و آئینی راستے اختیار کر کے پائیدار امن اور قانون کی بالادستی ضروری ہے۔ عملی حکمت عملی لازمی ہے محض بیانات کافی نہیں۔
بیرونی مداخلت اور سرمایہ کاری کے اثرات کو سنجیدگی سے دیکھیں۔
بھارت اور دیگر عناصر کی ممکنہ شمولیت پر تشویش کا اظہارکرتےہیں۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں مسائل کا حل قومی سطح پر سوچا جائے۔ اگر کسی کے پاس قابل عمل حل ہے تو قوم اسے خوش آمدید کہے گی۔
مسئلے کی پیچیدگی میں سادہ فارمولے کارگر ثابت نہیں ہوں گے۔
عوامی فلاح اور تحفظ اولین ترجیح،منظم عملی اقدامات چاہئیں۔ پالیسی ساز اداروں کو متحد ہو کر جامع حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی۔ بیرونی اور اندرونی خطرات کا مشترکہ طور پر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں  :تحریک عدم اعتمادلانےکافیصلہ

متعلقہ خبریں