اسلام آباد( اے بی این نیوز )سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ملک میں سیاسی جماعتیں مختلف مسائل کو اجاگر کرتی ہیں اور حکومت کو ان معاملات پر ردِعمل دینا پڑتا ہے۔ ان کے مطابق سیاسی کشیدگی کا ماحول محض بیانات تک محدود نہیں بلکہ ایک وسیع تر سیاسی پس منظر رکھتا ہے۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے بیانات صرف جوشِ خطابت نہیں بلکہ ایک واضح اور پُرخلوص سیاسی مؤقف کی عکاسی کرتے ہیں۔ جے یو آئی (ف) اس سے قبل بھی اسی نوعیت کے مؤقف کا اظہار کر چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی اور سندھ کے جلسوں میں بھی مولانا فضل الرحمان حکومت کی پالیسیوں پر عدم اطمینان ظاہر کر چکے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جماعت کے اندر پالیسی اختلافات کوئی نئی بات نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی (ف) حکومت کی موجودہ پالیسیوں سے مطمئن نہیں، تاہم سیاسی سطح پر پارٹی کی پوزیشن واضح اور مضبوط ہے۔ کامران مرتضیٰ نے انکشاف کیا کہ 20 پولنگ اسٹیشنز پر ووٹنگ جنرل الیکشن سے پہلے کی تاریخ پر ڈالی گئی جبکہ فارم 45 پر بھی قبل از وقت تاریخیں درج ہیں، جو انتخابی شفافیت پر سوالیہ نشان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ناراضی اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ معاملہ کافی عرصے سے موجود ہے۔ ناراضی کے باوجود جے یو آئی (ف) اس وقت پی ٹی آئی کے ساتھ چل رہی ہے، تاہم 26ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر جماعت کو استعمال کیا جا رہا ہے۔وہ اے بی این نیوز کے پروگرام ڈبیٹ ایٹ ایٹ میں گفتگو کر رہے تھےانہوں نے کہا کہ
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے مزید بتایا کہ پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ معاملات پہلے سے چل رہے ہیں اور ری پول کے ریکارڈ میں پرانی تاریخوں کا اندراج اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ انتخابی عمل میں بے ضابطگیاں موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی (ف) کا مؤقف واضح ہے اور اچانک اختلافات کی بات درست نہیں، کیونکہ جماعت اپنے سیاسی فیصلے مکمل غور و فکر کے بعد کرتی ہے۔
مزید پڑھیں :ابراہم معاہدہ، سعودی عرب جلد اس میں شامل ہو گا،ٹرمپ کا دعویٰ