اہم خبریں

پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے؟ منصور احمد خان کا بڑا انکشاف!

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر منصور احمد خان نے کہا کہ افغان طالبان نے ہمیشہ زبانی طور پر پاکستان کو یقین دہانی کرائی کہ افغان سرزمین کسی بھی صورت پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، تاہم عملی طور پر یہ وعدے پورے نہیں کیے گئے۔

اے بی این نیوز کے پروگرام “ڈی بیٹ ایٹ 8” میں گفتگو کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان سہ فریقی مکالمہ (Trilateral Dialogue) کے ذریعے اس مسئلے کے حل کی کوشش کی گئی، لیکن بدقسمتی سے سیاسی و سلامتی کے معاملات میں مستقل بنیادوں پر تعلقات قائم نہیں ہو سکے۔ ان کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان طویل المدتی جنگ کے بعد ایک نئے، پُرامن اور باہمی اعتماد پر مبنی رشتہ استوار ہونا چاہیے تھا جو ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا۔

منصور احمد خان نے واضح کیا کہ پاکستان کا سب سے بڑا تحفظاتی خدشہ یہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے آنے والے جنگجوؤں کو پناہ نہ دی جائے۔ اگر کچھ عناصر بطور پناہ گزین وہاں مقیم ہیں تو انہیں پاکستان کی سرحدوں سے دور رکھا جائے تاکہ وہ دہشت گردی کی کارروائیاں نہ کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ کشیدگی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ افغان طالبان خود ان خوارج کو سرحد پار کرا رہے تھے، جس سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور دونوں جانب صورتحال کشیدہ ہوئی۔ منصور احمد خان کے مطابق پاکستان کے پاس اس وقت کوئی اور راستہ نہیں تھا، لہٰذا پاک فوج نے جوابی کارروائی میں اپنے اہداف مکمل کیے۔

انہوں نے بتایا کہ حملوں میں افغان طالبان کے ساتھ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد گروہ بھی شامل تھے، جس کے باعث پاکستان کو فیصلہ کن قدم اٹھانا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان بھارت کی پراکسی کے طور پر اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث رہا تو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مزید خراب ہوں گے، جس کا فائدہ صرف بھارت کو ہوگا۔

منصور احمد خان نے کہا کہ بھارت پہلے ہی افغانستان میں اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، جیسا کہ حالیہ دنوں میں افغان وزیر خارجہ متقی کے دورۂ بھارت کے دوران نئی دہلی نے کئی ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا، جن میں پانی کے شعبے میں تعاون بھی شامل ہے۔ ان کے مطابق یہ تمام اقدامات پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہیں کیونکہ اس سے بھارت کو پاکستان کے مغربی اور مشرقی دونوں محاذوں پر دباؤ بڑھانے کا موقع مل سکتا ہے۔

پاکستان کی فوجی برتری پر بات کرتے ہوئے سابق سفیر نے کہا کہ پاکستان کے پاس ایک منظم اور تربیت یافتہ فوج موجود ہے، جب کہ افغانستان کے پاس اس نوعیت کی کوئی باقاعدہ فورس نہیں۔ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے پرانی افغان ڈیفنس فورسز کو تحلیل کر دیا، جس سے ان کے دفاعی نظام میں کمزوری آئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے بارڈر پوسٹس اور دہشت گردوں کے کیمپس کو نشانہ بنایا ہے، جس سے پاکستان کو واضح عسکری فائدہ حاصل ہوا ہے۔ تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ غیر روایتی یا ہائبرڈ جنگوں میں شدت پسند گروہ دوبارہ ابھر سکتے ہیں، اس لیے دیرپا حل کے لیے افغان حکومت کے ساتھ سفارتی سطح پر مذاکرات ناگزیر ہیں۔

منصور احمد خان کے مطابق پاکستان کو طالبان یا کسی بھی حکومت کے ساتھ “ریاست بہ ریاست” تعلقات استوار کرنے چاہئیں، تاکہ باہمی اعتماد بحال ہو سکے اور سرحدی کشیدگی میں کمی لائی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ آپریشنز میں پاکستان نے اپنے تمام عسکری اہداف حاصل کر لیے ہیں، تاہم اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک “ڈی ایسکلیشن” اور مذاکرات کے ذریعے تعلقات کو معمول پر لائیں۔ ان کے بقول، ماضی کی طرح آخرکار سرحدی علاقوں میں نارملائزیشن کے عمل کے تحت پوسٹس واپس کر دی جائیں گی۔

سابق سفیر نے کہا کہ پاکستان ڈورنڈ لائن کو باضابطہ بین الاقوامی سرحد تسلیم کرتا ہے اور عالمی برادری بھی اسی مؤقف کی حامی ہے۔ البتہ، بعض افغان حلقے اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں، جس سے تنازعات جنم لیتے ہیں۔

جموں و کشمیر سے متعلق افغان مؤقف پر ردعمل دیتے ہوئے منصور احمد خان نے کہا کہ اگر افغانستان نے بھارت کے ساتھ اپنے مشترکہ اعلامیے میں کشمیر کو بھارت کا حصہ تسلیم کیا ہے تو یہ پاکستان کے لیے انتہائی تشویشناک اور ناقابلِ قبول عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کابل سے باضابطہ احتجاج اور وضاحت طلب کرنی چاہیے، کیونکہ پاکستان نے ہمیشہ افغان عوام کے ساتھ برادرانہ تعلقات نبھائے ہیں۔

آخر میں منصور احمد خان نے کہا کہ پاکستان کی پوزیشن اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق واضح ہے کہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، اور کسی بھی ملک کو بھارت کے یکطرفہ اقدامات کی توثیق نہیں کرنی چاہیے۔

ان کے مطابق، پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کے طویل المدتی مفادات اسی میں ہیں کہ تعلقات کو مذاکرات اور اعتماد سازی کے ذریعے معمول پر لایا جائے، تاکہ خطے میں امن و استحکام ممکن ہو سکے۔
مزید پڑھیں‌:ٹرمپ کو امن کا نوبل انعام نہ دینے کی اصل وجہ سامنے آگئی! چیئرمین کمیٹی کا اہم بیان

متعلقہ خبریں