اسلام آباد (اے بی این نیوز) پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ پارٹی میں کسی کو آگے لانے یا نئی ذمہ داری دینے کا اختیار صرف بانی پی ٹی آئی کے پاس ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کسی بادشاہت کا نام نہیں کہ بغیر اصول یا مشاورت کے کسی کو عہدہ دے دیا جائے۔
شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سمجھتے ہیں کہ اب پارٹی میں نئے لوگوں کو موقع دینا چاہیے، اور وزیراعلیٰ نے بھی اپنا پیغام اسی تسلسل میں واضح کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں کوئی ابہام نہیں، اور نہ ہی سلمان اکرم راجہ کے بیان سے کوئی نیا زاویہ پیدا ہوتا ہے۔ سلمان راجہ نے صرف یہ کہا تھا کہ ایسا تاثر پایا جا رہا ہے، مگر میرے علم میں ایسا کوئی تاثر موجود نہیں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں تو بہتر ہے کہ ان سے ہی پوچھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے گزشتہ دو سال میں متعدد رہنماؤں کو پارٹی ذمہ داریاں دیں، اور ہر تبدیلی نظم و ضبط کے اندر رہ کر کی گئی۔ کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ فیصلوں میں جلدی کے بجائے صبر سے کام لیا جائے، تاہم قیادت کے احکامات پر عمل ہر رکن پر لازم ہے۔
شیخ وقاص اکرم نے زور دیا کہ پارٹی کے اندر غیرضروری بحث یا تماشہ نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق اگر کوئی بڑی تبدیلی آنی ہوتی تو وہ اب تک سامنے آ چکی ہوتی، اس لیے اس معاملے پر غیر ضروری قیاس آرائی سے گریز کیا جائے۔وہ اے بی این نیوز کے پروگرام سوال سے آگے میں گفتگو کررہے تھے انہوں نے کہا کہ
انہوں نے علیمہ خان کے حالیہ بیان پر اٹھنے والے سوالات کو قابلِ توجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی قیادت اس پر غور کر رہی ہے۔
شیخ وقاص اکرم نے مزید کہا کہ علی امین گنڈاپور نے واضح طور پر کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کا حکم آیا ہے، اور اس فیصلے پر مزید تصدیق کی ضرورت نہیں۔ ان کے مطابق خیبرپختونخوا دہشتگردی کی فرنٹ لائن ہے، جہاں معیشت اور عوامی زندگی بری طرح متاثر ہیں، ایسے میں وزیراعلیٰ کے منصب کی ذمہ داریاں بہت سنگین ہیں یہ بچوں کا کھیل نہیں بلکہ قیادت، استحکام اور نظم و ضبط کا امتحان ہے۔
سینئر سیاستدان محمد علی درانی نے کہا کہ پاکستان اس وقت سیاسی اور معاشی بحران کے سنگین مرحلے سے گزر رہا ہے، ایسے میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک صفحے پر لانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
محمد علی درانی نے کہا کہ خیبرپختونخوا سمیت پورے ملک میں واضح گائیڈ لائنز کی اشد ضرورت ہے تاکہ انتشار کے بجائے استحکام کی فضا پیدا ہو۔ ان کے مطابق کسی بھی سیاسی یا ذاتی معاملے کو قومی سلامتی کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہیے، کیونکہ ایسی کوششیں ملک کے استحکام کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ “اس وقت ملک کے اندر ایک واضح ایڈریس بنایا جا رہا ہے، جہاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک ہی صفحے پر بیٹھ کر کام کر رہی ہیں۔ مگر اس سیاسی قربت کے باوجود سندھ، پنجاب اور دیگر صوبوں میں عوامی مسائل جوں کے توں ہیں — بعض علاقوں میں تو حالات جنگ جیسے بنتے جا رہے ہیں۔”
سینئر سیاستدان نے کہا کہ سیاست میں مسلسل ٹکراؤ نے نظام کو مفلوج کر دیا ہے۔ “یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ ہر جماعت اپنی اپنی حکمت عملی پر قائم ہے اور قومی ایجنڈا کہیں گم ہو چکا ہے، حالانکہ یہ وقت ملک کے لیے بہت نازک ہے۔وہ اے بی این نیوز کے پروگرام سوال سے آگے میں گفتگو کررہے تھے انہوں نے کہا کہ
حکومت نے ڈائیلاگ کے عمل کا آغاز کیا ہے، مگر اسے حقیقی نتیجہ خیز بنانے کے لیے سب بڑی اپوزیشن جماعتوں کو شامل کرنا لازمی ہے۔ ان کے مطابق “مفاہمت کی سب سے بڑی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، لیکن افسوس ہے کہ موجودہ حکومت خود ایک پتلی تماشہ بن کر سیاسی محاذ آرائی کو ہوا دے رہی ہےانہوں نے کہا کہ سیاسی قوتوں کے مابین ایک دوسرے پر الزامات اور حملوں نے عوام میں شدید عدم اعتماد پیدا کر دیا ہے، اور اپوزیشن کے اندر بھی باہمی رابطے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
محمد علی درانی نے گفتگو کے اختتام پر کہا کہ اگر تمام سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر مل کر کام کریں تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ “اب وقت آ گیا ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ ملک سب سے پہلے ہے — اقتدار بعد میں۔
مزید پڑھیں :وزیرِ اعظم کی تبدیلی؟بڑی خبر سامنے آگئی