اہم خبریں

تحریکیں اکثر غیر متوقع اور بظاہر چھوٹے واقعات سے جنم لیتی ہیں، فواد چوہدری

اسلام آباد (اے بی این نیوز) سابق وفاقی وزیر اور سینئر سیاستدان فواد چوہدری نے کہا کہ پشاور میں ہونے والی ریلی کو بڑی عوامی تحریک کا آغاز قرار دینا مشکل ہے کیونکہ جہاں حکومت کی گرفت مضبوط ہو، وہاں اپوزیشن کا جلسہ زیادہ اثرانداز نہیں ہو سکتا۔ ان کے مطابق عوام کی اکثریت عمران خان کے ساتھ ہے لیکن خوف کے باعث کھل کر سامنے نہیں آ رہی۔ اے بی این نیوز کے پروگرام ڈیبیٹ ایٹ 8 میں گفتگو کرتے ہوئےانہوں نے کہاکہ”اگر 8 فروری کو 65 فیصد عوام نے عمران خان کو ووٹ دیا تو آج انتخابات ہوں تو 75 فیصد عوام ان کے ساتھ ہوں گے، لیکن فی الحال عوام خوفزدہ ہیں۔ یہ خوف کب ٹوٹے گا اور کس طرح ٹوٹے گا، اس کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔”

انہوں نے تاریخ کے مختلف ادوار کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ تحریکیں اکثر غیر متوقع اور بظاہر چھوٹے واقعات سے جنم لیتی ہیں۔ 1947 میں پنجاب میں ایک شادی کے واقعے نے بڑے فسادات کو جنم دیا، ایوب خان کے دور میں طلبہ کی چھوٹی سی مزاحمت بڑی عوامی تحریک میں بدل گئی، جبکہ بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج انقلاب کا پیش خیمہ بنا۔ انہوں نے کہا کہ “یہ کہنا مشکل ہے کہ کون سا واقعہ پاکستانی عوام کو خوف کی زنجیر سے آزاد کرے گا۔”

وکلاء تحریک پر تنقید

فواد چوہدری نے وکلاء کی موجودہ صورتِ حال کو مایوس کن قرار دیا۔ ان کے مطابق 26ویں ترمیم کے بعد وکلاء کی مزاحمت کمزور پڑ گئی اور آئی ایل ایف (ILF) قیادت مکمل طور پر ناکام رہی۔ انہوں نے کہا:
“100 فیصد ذمہ داری وکلاء پر عائد ہوتی ہے۔ ججوں نے مزاحمت کی لیکن وکلاء ان کے ساتھ کھڑے نہ ہو سکے۔ آج وکلاء کی تحریک کمزور ہو چکی ہے اور پلاٹوں اور مراعات کی سیاست نے اسے مزید نقصان پہنچایا ہے۔”

اقوام متحدہ کے وفد پر سوالات

اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے شمع جونیجو کی شمولیت پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ پاکستان کے لیے باعثِ شرمندگی ہے کہ کسی کے بیک گراؤنڈ کو چیک کیے بغیر اعلیٰ سطحی اجلاس میں شامل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ “دفتر خارجہ اور حکومت دونوں کو اس پر جواب دینا ہوگا، کیونکہ ایسے اقدامات پاکستان کے وقار کو نقصان پہنچاتے ہیں۔”

پنجاب میں سیلاب اور سیاسی بیان بازی

پنجاب میں سیلاب کی صورتحال پر بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کے بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ پنجاب میں سیاسی کارڈ کھیلنے کی کوشش کرتی ہے لیکن میرٹ پر اسے پذیرائی نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ بڑے فیصلے ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کرتی ہیں، پیپلز پارٹی کو صرف سائیڈ لائن کیا جاتا ہے۔

عدلیہ میں تقسیم اور ججز کے خلاف شکایات

سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف شکایات پر بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ یہ عمل سیاسی دباؤ کا نتیجہ لگتا ہے اور اس سے عدلیہ مزید تقسیم ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق حکمران گروپ کے اندر بھی اس عمل پر تحفظات پائے جاتے ہیں کیونکہ اس سے بار کونسل کے انتخابات پر اثر پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ “کیا یہ جج صاحبان خاموش رہیں گے یا افتخار چوہدری کی طرح سامنے آئیں گے؟” ان کا کہنا تھا کہ ججز کے خلاف موجودہ کارروائیاں نظام عدل کے لیے نقصان دہ ہیں اور عوام میں مزید بے اعتمادی پیدا کر سکتی ہیں۔

فواد چوہدری نے اپنی گفتگو کے اختتام پر کہا کہ پاکستان کے مسائل کو جبر اور طاقت کے زور پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے مفاہمت، شفاف جمہوری عمل اور اداروں کی مضبوطی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتوں کو عقل و حکمت سے فیصلے کرنا ہوں گے ورنہ کوئی بھی چھوٹا سا واقعہ بڑا بحران بن سکتا ہے۔
مزید پڑھیں‌:جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت 30 ستمبر تک ملتوی

متعلقہ خبریں