اہم خبریں

عمران خان افغان قیادت کے ساتھ مل کر مشترکہ راستہ نکالنا چاہتے ہیں،علی ظفر

اسلام آباد (اے بی این نیوز     )علی ظفر نے کہا کہ افغانستان کو تنہا کرنے کے بجائے بات چیت اور مذاکرات کی راہ اپنانا وقت کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مقامی لوگوں کی شمولیت اور مشاورت ناگزیر ہے تاکہ ایک پائیدار حکمت عملی تشکیل دی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی ہمیشہ مکالمے اور امن کے حامی رہے ہیں اور افغان قیادت کے ساتھ مل کر مشترکہ راستہ نکالنا چاہتے ہیں۔

القادر ٹرسٹ کیس پر بات کرتے ہوئے علی ظفر نے کہا کہ یہ مقدمہ بے بنیاد اور جھوٹا ہے، جس طرح ماضی میں کئی کیسز ختم ہوئے، یہ بھی عدالت میں ختم ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ میں سزا ختم ہونے کے بعد جھوٹے مقدمات بنانے والوں سے ہرجانہ وصول ہونا چاہیے۔ انہوں نے توشہ خانہ ٹو کیس کو بھی بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ یہ جلد انجام کو پہنچے گا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ بانی پی ٹی آئی کو جیل میں ذہنی اذیت دینے کے لیے تنہائی میں رکھا جا رہا ہے، حتیٰ کہ کتابیں اور ٹی وی جیسی بنیادی سہولتیں بھی چھین لی گئی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو رہے ہیں۔ علی ظفر نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ بانی پی ٹی آئی کسی ڈیل کا حصہ نہیں بنیں گے اور یہ تمام سیاسی مقدمات صرف انہیں جیل میں رکھنے کے لیے بنائے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالتی جنگ کے ساتھ سیاسی جنگ بھی لڑنی ہوگی کیونکہ عوام کا ساتھ اور قیادت کا کردار اس وقت نہایت اہم ہے۔ انہوں نے اعتماد ظاہر کیا کہ عدالتوں سے انصاف ضرور ملے گا، تاہم حکومت بانی پی ٹی آئی کے مؤقف کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ علی ظفر نے کہا کہ ٹوئٹس پر پابندی لگانا حکومت کی کمزوری کی نشانی ہے کیونکہ سوشل میڈیا کو بند نہیں کیا جا سکتا اور بیانیے کا جواب صرف بیانیے سے دیا جانا چاہیے۔وہ اے بی این نیوز کے پروگرام تجزیہ میں گفتگو کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ

انہوں نے انکشاف کیا کہ بانی پی ٹی آئی کی ویڈیو لنک پر نہ آواز آئی اور نہ تصویر، جس پر قانونی تقاضے پورے نہ ہونے کے باعث سماعت کا بائیکاٹ کیا گیا۔ ان کے مطابق یہ سب اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حکومت مخالف بیانیے کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن عوامی حمایت اور عدالتی انصاف کے ذریعے سچ ضرور سامنے آئے گا۔
حافظ حمداللہ نے اے بی این نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نائن الیون کے بعد کی صورتحال اور آج کا منظرنامہ بالکل مختلف ہے۔ اس وقت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ بڑے ممالک ایک پیج پر تھے، لیکن آج کی دنیا واضح طور پر تقسیم نظر آتی ہے۔ ان کے مطابق امریکہ، برطانیہ اور فرانس ایک جانب کھڑے ہیں، جبکہ چین اور روس دوسری طرف ہیں، جس سے عالمی سیاست میں نئی کشیدگی پیدا ہو رہی ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر خطے میں کسی نئی جنگ کے شعلے بھڑکے تو اس کے اثرات صرف ایک ملک تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ چین، ایران، روس اور پاکستان سمیت پورا خطہ متاثر ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ممکنہ جنگ کا اصل فائدہ صرف بھارت کو پہنچے گا، جبکہ پاکستان کمزور پوزیشن میں آ جائے گا، جو پہلے ہی معاشی اور سیاسی مشکلات کا شکار ہے۔

حافظ حمداللہ نے سوال اٹھایا کہ پاکستان آنے والے دنوں میں امریکہ کا ساتھ دے گا یا چین کا، کیونکہ یہ فیصلہ ملکی مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہوگا۔ ان کے مطابق پاکستان کے قیمتی وسائل سستے داموں امریکی کمپنیوں کو بیچے جا رہے ہیں، جو نہ صرف معیشت بلکہ قومی خودمختاری کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ موجودہ حالات میں پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں دانشمندی اور قومی مفاد کو اولین ترجیح دینا ہوگی تاکہ عالمی طاقتوں کی رسہ کشی میں ملک مزید نقصان نہ اٹھائے۔
مزید پڑھیں :امریکی سیکریٹ سروس نے اقوام متحدہ اجلاس سے قبل نیویارک کو ممکنہ بڑے خطرے سے بچالیا

متعلقہ خبریں