اسلام آباد (اے بی این نیوز) ایئرکموڈور (ر) خالد چشتی نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی اور سیکیورٹی تعاون کوئی نیا تصور نہیں بلکہ دہائیوں پر محیط ایک مضبوط باہمی تعلق کا تسلسل ہے۔
اے بی این نیوز کے پروگرام “سوال سے آگے” میں گفتگو کرتے ہوئےانہوں نے بتایا کہ وہ خود بھی سعودی عرب میں اعلیٰ سطح پر تربیت فراہم کرچکے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان دفاعی شعبے میں گہری ہم آہنگی اور باہمی سمجھ بوجھ موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتحال نے اس تعاون کو مزید اہم بنا دیا ہے۔
ایئرکموڈور (ر) خالد چشتی کے مطابق، بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی حالیہ خارجہ پالیسی نے بالواسطہ طور پر پاکستان کو خطے میں ایک بار پھر “ریلیونٹ” کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں بھی یہ واضح پیغام گیا کہ امریکہ اب خلیجی ممالک کو تیل کے بدلے سیکیورٹی کی پرانی ضمانتیں نہیں دے سکتا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی ترجیحات اب اسرائیل کے حق میں زیادہ جھکاؤ رکھتی ہیں، جس سے خلیجی ممالک، بالخصوص سعودی عرب میں عدمِ تحفظ (Insecurity) کا احساس پیدا ہوا۔ ان کے بقول، “اگر اسے دھوکہ (Betrayal) نہ بھی کہا جائے تو کم از کم اعتماد ضرور متزلزل ہوا ہے۔”
خالد چشتی نے کہا کہ پاکستان کی عسکری صلاحیتیں محدود وسائل کے باوجود انتہائی مؤثر ہیں، اور سعودی عرب بھی دفاعی اعتبار سے خاصی مضبوط پوزیشن رکھتا ہے۔ تاہم پاکستان کو جو برتری حاصل ہے وہ صرف عسکری صلاحیت نہیں بلکہ عزم، حوصلہ اور جنگی کامیابیوں کی شاندار تاریخ ہے۔
انہوں نے ماضی کی عرب-اسرائیل جنگوں (1967 اور 1973) کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی پائلٹس اور ایئر ڈیفنس کنٹرولرز نے عرب ممالک کی جانب سے رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دیں اور نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ خالد چشتی نے اسرائیل ایئر فورس کے سابق سربراہ اور بعدازاں صدر بننے والے عزر وائز مین کے ایک تاریخی بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایئر مارشل نور خان کو “انتہائی شاندار شخصیت” قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ خوش ہیں کہ نور خان ان کے دشمن نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی یہ تاریخی ڈیٹرنس آج بھی قائم ہے اور یہ خالصتاً دفاعی مقاصد کے لیے ہے، کسی ملک کے خلاف جارحیت کے لیے نہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان اور سعودی عرب کی مشترکہ دفاعی تیاری صرف باز deterrence کے طور پر قائم رہے گی اور کسی عملی جنگ کی نوبت نہ آئے گی۔
پروگرام کے دوران ایک سوال پر کہ آیا پاکستان کو مستقبل میں کسی مشرقِ وسطیٰ تنازع (مثلاً اسرائیل-ایران یا اسرائیل-سعودی عرب تنازع) میں گھسیٹا جا سکتا ہے، خالد چشتی نے کہا کہ فی الحال ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ پاکستان کسی کی جگہ نہیں لے رہا بلکہ صرف اپنی سیکیورٹی اہمیت کو تسلیم کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کی پالیسیوں نے خطے میں ایک خلا (vacuum) پیدا کیا ہے جسے قدرتی طور پر کوئی نہ کوئی طاقت پُر کرے گی۔ “یہ خلا پاکستان نے پیدا نہیں کیا بلکہ ہمیں حالات نے ریلیونٹ بنا دیا ہے۔” ان کے مطابق عرب ممالک اپنے وسائل کے باوجود کسی حد تک عدم تحفظ کا شکار تھے اور اب وہ اپنی دفاعی صلاحیت بڑھا رہے ہیں، جیسا کہ بھارت نے رافیل طیاروں کے 120 نئے آرڈر دے کر کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر مستقبل میں خدانخواستہ اسرائیل کوئی جارحانہ قدم سعودی عرب کے خلاف اٹھائے تو پاکستان فوری طور پر میدان میں نہیں اترے گا بلکہ اس کے لیے پاکستان کو پہلے سے امن کے دنوں میں ہی اپنی دفاعی صلاحیت مضبوط بنانی ہوگی۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ جتنی زیادہ پاکستان اپنی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کرے گا، اتنا ہی زیادہ اسرائیل جیسے ممالک پاکستان کے اثرورسوخ سے محتاط رہیں گے۔
پروگرام کے اختتام پر ایئرکموڈور (ر) خالد چشتی نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی تعاون خطے میں امن و استحکام کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے اور اس کا مقصد کسی ملک کے خلاف جارحانہ اقدامات نہیں بلکہ باہمی تحفظ اور توازن قائم رکھنا ہے۔
شیخ وقاص اکرم نے کہا ہے کہ اگر پارٹی کا قائد عدالتوں سے انصاف لینے پر اصرار رکھتا ہے تو وہ اسی قانونی راستے پر قائم رہیں گے اور کسی بھی معاملے میں آئین و قانون کا دائرہ ترک نہیں کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بانیِ پی ٹی آئی کسی فرد نہیں بلکہ ایک وسیع عوامی تحریک کے راہنما ہیں اور ان کے خلاف سلوک دراصل ملک کے لاکھوں حامیوں کے جذبات سے جڑا ہوا معاملہ ہے، اسی لیے ان کے بھیجے گئے خطوط کو مشاورت یا قیاس آرائی کی بنیاد پر نہیں لیا جانا چاہیے۔ شیخ وقاص نے واضح کیا کہ میڈیا اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بلاک کر کے سچائی کو دبایا نہیں جا سکتا اور قائد کے پیغامات عوام تک اسی شدت سے پہنچتے رہیں گے؛ عوامی جذبات کو دبا دینا ملک دشمنانہ سوچ کے مترادف ہوگا۔
انہوں نے پاکستان-سعودی دفاعی معاہدے کو ریاستی نوعیت کا فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ معاہدے کی مکمل تفصیلات سامنے آنے تک بے جا ردعمل مناسب نہیں ہوں گے اور پارٹی اراکین کو غیر مستند قیاس پر بات نہ کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔ شیخ وقاص نے اعلان کیا کہ بانیِ پی ٹی آئی نے 27 ستمبر کو پشاور میں جلسے کی کال دی ہے اور پورے ملک سے شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا؛ کے پی میں اگر اندرونی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے کیونکہ یہ صوبہ ہمیشہ سرحدی ناامنی اور دشمنی کا پہلے نشانہ رہا ہے اور یہاں کے عوام، فوج و قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پہلے ہی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وفاق طالبان یا افغان حکام سے مؤثر بات چیت نہیں کر پا رہا تو صوبے کو اپنی جگہ اور رابطے استعمال کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے، کیونکہ کے پی کے لوگوں کے افغان برادری اور اثر و رسوخ کے تعلقات مضبوط ہیں اور انہیں اس تناظر میں فعال کردار ادا کرنے دیا جانا چاہیے۔
مزید پڑھیں :سعودی ولی عہد محمد بن سلمان 22 ستمبر کو بڑی خوشخبری سنائیں گے،جا نئے کس بارے