اہم خبریں

صدر ٹرمپ کا بھارت کے لیے مثبت پیغام! بھارت کاردعمل ؟عبدالباسط

اسلام آباد( اے بی این نیوز) سابق سفیر عبدالباسط نے اے بی این کے پروگرام “ڈیسائفر” میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے لیے ایک مثبت پیغام دیا ہے، جس کے جواب میں بھارت نے بھی خوشگوار اور مثبت رویہ اختیار کیا ہے۔ یہ تاثر مل رہا ہے کہ کیا دونوں ممالک کے درمیان سرد مہری ختم ہو رہی ہے؟

ادھر لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ پاکستان کے پاس ایسی کون سی “گیڈر سنگھی” ہے کہ بیک وقت چین اور امریکہ دونوں کو خوش رکھے ہوئے ہے؟

صدر ٹرمپ کا بیان:
صدر ٹرمپ نے کہا کہ “بھارت روس سے تیل خرید رہا ہے، اس پر مجھے افسوس ہے، مگر میرے وزیراعظم مودی بہت عظیم آدمی ہیں، اور بھارت و امریکہ کے تعلقات خاص (special) ہیں۔”

اس بیان کے بعد بھارت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، اور بھارتی وزیراعظم مودی نے فوراً ایک ٹویٹ کیا، جس میں ٹرمپ کے جذبات کو سراہا اور اس بات سے اتفاق کیا کہ امریکہ-بھارت تعلقات “اسٹریٹجک” اور “خصوصی” نوعیت کے ہیں۔

کیا بھارت کی لابنگ کامیاب ہوئی؟
جی ہاں، بھارت نے امریکہ میں 20 سے 25 لابنگ فرمز ہائر کر رکھی ہیں، جن پر ملینز آف ڈالرز خرچ کیے جا رہے ہیں۔ صرف حکومت نہیں بلکہ پرائیویٹ کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ امریکہ میں تھنک ٹینکس، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، پینٹاگون وغیرہ میں بڑی تعداد میں بھارتی نژاد افراد موجود ہیں، جو بھارت کے لیے ایک مثبت لابی مہیا کرتے ہیں۔

پاکستان کی کوششیں:
پاکستان بھی پیچھے نہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے جا رہے ہیں، اور وہاں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک تجویز (پراپوزل) دی گئی ہے تاکہ دونوں رہنما ملاقات کر سکیں، مگر امریکہ کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

مودی کا دورہ امریکہ؟
پہلے خبریں تھیں کہ وزیراعظم نریندر مودی بھی نیویارک آئیں گے، مگر اب اطلاعات ہیں کہ شاید وہ نہیں آئیں گے، بلکہ بھارت کی نمائندگی وزیر خارجہ جے شنکر کریں گے۔ وجہ شاید یہی ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے ملاقات کی یقین دہانی نہ مل سکی۔

پاک امریکہ تعلقات اور روس-چین-امریکہ مثلث:
پاکستان نے بھی امریکہ میں لابنگ فرمیں ہائر کر رکھی ہیں، جیسا کہ بھارت نے کیا۔ ہر ملک نے وہاں اپنی نمائندگی کے لیے لابنگ کا بندوبست کیا ہوا ہے۔

دوسری طرف یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ امریکہ اب بھارت کو چین کے خلاف اتنا پروموٹ نہیں کر رہا جتنا اوباما یا بائیڈن دور میں کیا جاتا تھا۔ شاید صدر ٹرمپ چین کو اتنا بڑا حریف نہیں سمجھتے، بلکہ چین کے ساتھ معاملات طے کرنا چاہتے ہیں۔

چین بھی چاہتا ہے کہ امریکہ اور روس کے درمیان کشیدگی باقی رہے تاکہ توجہ چین کی طرف نہ جائے اور روس کی چین پر انحصار باقی رہے۔

روس-امریکہ تعلقات:
صدر ٹرمپ نے روس-یوکرین جنگ ختم کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی ہے اور الاسکا میں صدر پیوٹن سے ملاقات بھی ہوئی ہے۔ اب کوشش کی جا رہی ہے کہ یوکرین جنگ کے حوالے سے کسی معاہدے پر پہنچا جائے، تاکہ عالمی کشیدگی کم ہو۔

تجارت اور ٹیرف:
ٹرمپ انتظامیہ بھارت سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ امریکی ایگریکلچرل اور ڈیری مصنوعات پر عائد ٹیرف ختم کرے تاکہ امریکہ کی ایکسپورٹس بھارت میں بڑھ سکیں۔

صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ بھارت امریکی جینیٹکلی موڈیفائیڈ اشیاء اور ڈیری مصنوعات درآمد کرے۔ تاہم، ابھی تک اس حوالے سے مکمل پیشرفت نہیں ہوئی۔

مزید پڑھیں‌:بھارتی سپریم کورٹ کے ایک ممتاز جج نے لائیو شو میں اسلام قبول کر لیا

متعلقہ خبریں