اسلام آباد ( اے بی این نیوز ) سینئر سیاستدان دانیال عزیز نے کہا کہ حالیہ بارشوں اور نالوں کے طغیانی کے باعث شکرگڑھ، نارووال اور سیالکوٹ کے کئی علاقے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ سیلابی ریلے نے زرعی زمینوں، دیہاتوں اور انفراسٹرکچر کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے جبکہ مقامی آبادی حکومتی امداد کے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت جدوجہد کر رہی ہے۔
نالہ ڈیک میں آنے والے طوفانی ریلے نے کئی دیہاتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، سڑکیں بہہ گئیں، پل ٹوٹ گئے اور زرعی رقبے پانی میں ڈوب گئے۔ ان کے مطابق “تین ہزار کیوسک کے قریب انجن پانی اپنے راستے سے نکل گیا، جس سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوئیں۔ مقامی لوگ درخت کاٹ کر اور دستی اقدامات کے ذریعے سیلابی پانی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر حکومتی سطح پر کوئی مؤثر حکمت عملی نظر نہیں آ رہی۔”
انہوں نے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں باغات اور چارہ تباہ ہو گیا ہے، مویشی مر گئے ہیں اور کھڑا پانی بیماریوں کو جنم دے رہا ہے۔ ڈینگی اور وبائی امراض کا خطرہ بڑھ گیا ہے جبکہ کھیتوں میں نومبر کی فصل کاشت کرنے کے لیے کسانوں کے پاس وسائل باقی نہیں رہے۔
سابق وزیر نے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “سیلاب زدہ علاقوں میں ریلیف کے بجائے فوٹو سیشن پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ کشتیوں میں سیاستدانوں کی تصاویر تو لی جا رہی ہیں مگر گاؤں کے لوگوں کی حقیقی مدد کرنے والا کوئی نہیں۔”اے بی این نیوز کے پروگرام تجزیہ میں گفتگو کرتے ہوئےدانیال عزیز نے بتایا
کہ 2022 کے سیلاب کے بعد عالمی برادری نے پاکستان کے لیے 11 ارب ڈالر امداد کا وعدہ کیا تھا مگر حکومت کی نااہلی کے باعث وہ فنڈز آج تک استعمال نہیں ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ “حکومت کے پاس فلڈ مینجمنٹ کا کوئی واضح منصوبہ نہیں۔ پاکستان میں کمپیوٹرائزڈ لینڈ ریکارڈ اور سیٹلائٹ امیجز دستیاب ہیں، جن سے متاثرہ رقبے اور نقصانات کا فوری تعین کیا جا سکتا ہے، لیکن انتظامیہ تاحال سست روی کا شکار ہے۔”
انہوں نے مطالبہ کیا کہ متاثرہ کسانوں کو فوری مالی امداد فراہم کی جائے تاکہ وہ دوبارہ کھیتی باڑی شروع کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسانوں کو کھڑا نہ کیا گیا تو گندم اور آٹے کا بحران شدت اختیار کر سکتا ہے۔
مزید پڑھیں :میں نے خواجہ آصف کا مقابلہ نہیں کرنا حق اور سچ کہنا ہے،حنیف عباسی