اسلام آباد (اے بی این نیوز)سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ہم نے صرف سیمینارز اور دعوے کیے، عملی اقدامات نہ ہونے کے باعث بحران مزید گہرے ہو گئے۔بلین ٹری سونامی میں “ایک ارب درخت” لگانے کا دعویٰ صرف دکھاوا تھا، حقیقت میں صرف 20 لاکھ پودے نرسری سے لگائے گئے جبکہ باقی خود اگنے والے درخت شمار کیے گئے۔دریاؤں پر قبضے اور ہاؤسنگ سوسائٹیز ماحولیاتی تباہی کی اصل وجہ ہیں۔ اگر گلیشیئرز اور دریاؤں کو کنٹرول نہ کیا گیا تو مستقبل میں بڑی آفات کا سامنا ہوگا۔ پاکستان کے پاس بڑے دریا موجود ہیں لیکن ڈیم نہ ہونے سے ہر سال تباہ کن سیلاب آتے ہیں۔ دریائے کابل پر ڈیم نہ ہونے کے باعث پانی ضائع اور قیمتی زمینیں برباد ہو رہی ہیں۔ ملک میں احتساب کا نظام سب سے کرپٹ ہو چکا ہے۔ ارب پتی لٹیروں کو عزت دار اور حکمران بنا دیا گیا ہے۔ * دریا کے کناروں پر تعمیرات کو کس قانون کے تحت سرکاری منظوری دی گئی؟ ایک بھی بلڈنگ بائی لاز کے مطابق ثابت ہو جائے تو تسلیم کر لوں گا۔ پاکستان میں اربوں روپے کی لاگت سے بننے والی سڑکیں پہلی بارش میں اکھڑ جاتی ہیں۔ دبئی میں سڑکیں 20 سال تک ٹھیکیدار کی ذمہ داری پر ہیں جبکہ پاکستان میں سڑک 20 دن بھی نہیں چلتی۔ صوبائی حکومتیں صرف فوٹو سیشن کرتی ہیں، عوامی خدمت کہیں نظر نہیں آتی۔بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر اجتماعی استعفوں کا فیصلہ شاید درست تھا لیکن ذاتی طور پر پارلیمان چھوڑنے کے حق میں نہیں۔وہ اے بی این نیوز کے پروگرام سوال سے آگے میں گفتگو کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ آج کی پارلیمان عوامی مفاد کی نمائندہ نہیں، غیر منتخب لوگوں کی موجودگی میں پارلیمان میں بیٹھنا فضول ہے۔ ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ درست فیصلہ تھا کیونکہ نظام پہلے ہی عوام کے اعتماد سے محروم ہے۔ 82 فیصد عوام سمجھتے ہیں کہ انتخابی نظام شفاف نہیں۔اپوزیشن لیڈر کے لیے محمود خان اچکزئی اور راجہ ناصر عباس بہتر انتخاب ہیں۔ عوامی حقوق معطل ہیں، خوف و ہراس کی فضا قائم ہے۔ ملک کو درست سمت میں لے جانے کا واحد راستہ پرامن احتجاج ہے۔ہم تباہی کے بعد خود احتسابی یاد کرتے ہیں، جبکہ دنیا میں ترقی وہی ممالک کرتے ہیں جو بروقت فیصلے لیتے ہیں۔ اگر پاکستان نے اب بھی اپنے وسائل اور اداروں کو درست نہ کیا تو آنے والی نسلوں کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔
مزید پڑھیں :ایس سی او اجلاس،مودی کو سفارتی کامیابی نہ مل سکی ،سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان