اہم خبریں

غزہ کے بعد ویسٹ بینک بھی خطرے میں، سابق سفیرعبدالباسط نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سابق سفیر عبدالباسط نے اے بی این کے پروگرام “ڈیسائفر” میں غزہ کی بگڑتی صورتحال، فلسطینی ریاست کے مستقبل، بھارت کے “اگنی فائیو” میزائل کے تجربے اور پاک-بھارت تعلقات پر اہم تجزیہ پیش کیا۔

عبدالباسط کا کہنا تھا کہ آئندہ پانچ سے دس برسوں میں فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ان کے مطابق اسرائیل نے دو ریاستی حل کو تقریباً دفن کر دیا ہے جبکہ عرب اور مسلم دنیا کی بے حسی نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں تباہی کے بعد اب مغربی کنارے میں بھی یہودی بستیاں تیزی سے آباد ہو رہی ہیں، جس سے ایک قابلِ عمل فلسطینی ریاست کا وجود تقریباً ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی عوام اپنی زمین چھوڑنے کو تیار نہیں، مگر عالمی طاقتوں اور مسلم دنیا کی خاموشی انسانی المیے کو بڑھا رہی ہے۔

بھارت کا “اگنی فائیو” میزائل: خطے کیلئے خطرہ

پروگرام میں بھارت کے “اگنی فائیو” میزائل کے حالیہ تجربے پر بھی گفتگو کی گئی۔ عبدالباسط نے کہا کہ یہ میزائل صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ چین سمیت کئی ممالک کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اصل تشویش اس کی جدید “مَرْو ٹیکنالوجی” ہے، جس سے ایک ہی میزائل سے متعدد اہداف کو بیک وقت نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کے ایسے اقدامات خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کو تیز کر رہے ہیں جبکہ پاکستان کا دفاعی پروگرام خالصتاً دفاعی نوعیت کا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کو اپنے میزائل دفاعی نظام کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

اسرائیل-بھارت گٹھ جوڑ اور کشمیر کی صورتحال

عبدالباسط نے اسرائیل اور بھارت کی پالیسیوں کو ایک دوسرے سے مشابہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح اسرائیل فلسطینی عوام پر مظالم ڈھا رہا ہے، اسی طرح بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کشمیری عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور امید ہے کہ وہاں فلسطین جیسی صورتحال پیدا نہ ہو۔

شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس اور پاک-بھارت تعلقات

ادھر شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا اجلاس چین میں منعقد ہونے جا رہا ہے۔ توقع کی جا رہی تھی کہ اس اجلاس کے دوران وزیراعظم شہباز شریف اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقات ہو گی، تاہم دفترِ خارجہ نے واضح کر دیا ہے کہ کوئی ملاقات طے نہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فی الحال دونوں ممالک کے درمیان بامقصد ڈائیلاگ کا کوئی امکان نہیں کیونکہ ماضی میں ایسی ملاقاتیں پاکستان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئیں، جن میں شرم الشیخ (2009) اور اوفا (2015) کی مثالیں موجود ہیں۔

ممکنہ بھارتی جارحیت اور انتخابی سیاست

تجزیہ کاروں کے مطابق، بھارت میں آئندہ انتخابات بی جے پی کے لیے فیصلہ کن ہوں گے۔ اگر کارکردگی کمزور رہی تو ماضی کی طرح کوئی “فالس فلیگ آپریشن” یا پاکستان پر حملے کا بہانہ تراشا جا سکتا ہے، جیسا کہ 2019 کے پلوامہ واقعے کے بعد ہوا تھا۔

پاکستان میں بھارتی نیٹ ورک بے نقاب

دوسری جانب پاکستان نے بھارتی خفیہ ایجنسی “را” کا ایک بڑا نیٹ ورک پکڑنے کا دعویٰ کیا ہے۔ حکام کے مطابق دبئی اور دیگر ممالک میں موجود بھارتی شہری پاکستان میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کرتے رہے ہیں۔ اس سے قبل کلبھوشن یادیو کی گرفتاری بھی دنیا کے سامنے بھارتی نیٹ ورک کو بے نقاب کر چکی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چاہیے یہ معاملہ باضابطہ طور پر دوست ممالک، ایف اے ٹی ایف اور اقوامِ متحدہ کے فورمز پر اٹھائے تاکہ بھارت کے عزائم کو عالمی سطح پر آشکار کیا جا سکے۔

 
مزید پڑھیں‌:پی ٹی آئی 9 مئی کی ذمہ داری قبول کرتی اور معافی مانگتی تو حالات بہتر ہوتے،رانا ثناءاللہ

متعلقہ خبریں