اسلام آباد (اے بی این نیوز) انڈسٹری ایف بی آر کی ریونیو کا سب سے بڑا ذریعہ ہے لیکن حکومت اس شعبے کو درکار اہمیت نہیں دے رہی۔ ان کے مطابق پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس روپے کی کمی نہیں بلکہ زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے جانا پڑتا ہے، اس لیے برآمدات اور صنعت کا فروغ ناگزیر ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں حکومت کی معاشی ٹیم جلد پہلی جامع انڈسٹریل پالیسی متعارف کرانے جا رہی ہے۔پاکستان کی 78 سالہ تاریخ میں کبھی ایک مکمل انڈسٹریل پالیسی سامنے نہیں آئی، اگر موجودہ حکومت اس پر عملدرآمد کرے تو یہ ملک کی معیشت کیلئے سنگ میل ہوگا۔
ہارون اختر نے کہا۔ ان کے مطابق سب سے پہلے بند پڑی صنعتوں کو بحال کرنا ضروری ہے کیونکہ ملک میں مشینری، عمارتیں، مارکیٹس اور لیبر موجود ہے، بس سازگار ماحول فراہم کرنا ہوگا۔سابق وفاقی وزیر ہارون اختر نے اے بی این کے پروگرام ڈی بیٹ ایٹ 8 میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ
کریڈٹ کی دستیابی، توانائی کی لاگت اور ان پٹس کی قیمت کم کر کے کاروبار کو آسان بنایا جانا چاہیے تاکہ صنعتیں دوبارہ فعال ہوں۔ میں پرامید ہوں کہ نئی انڈسٹریل پالیسی پاکستان کے صنعتی احیاء میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔
پی آئی اے اور دیگر اداروں کی نجکاری پر بات کرتے ہوئے ہارون اختر نے کہا کہ 1990 کی دہائی میں نواز شریف کے دور حکومت میں حقیقی معاشی اصلاحات کی گئیں جن میں ڈی ریگولیشن، لبرلائزیشن اور پرائیویٹائزیشن شامل تھیں۔ انڈیا نے انہی اصلاحات کو مستقل بنیادوں پر اپنایا اور فائدہ اٹھایا، لیکن پاکستان پالیسی کے تسلسل میں ناکام رہا۔2006 کے بعد سے اب تک کسی بڑی نجکاری کا عمل مکمل نہیں ہو سکا، اانہوں نے زور دیازیڈ ٹی بی ایل جیسے اداروں کی نجکاری اگر کی جائے تو سخت قواعد بنائے جائیں تاکہ نئے مالکان کسانوں کے مفاد کو نظرانداز نہ کر سکیں۔
امریکہ سے تجارت کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی برآمدات کا بڑا حصہ ٹیکسٹائل سے وابستہ ہے لیکن زیادہ تر ٹیکسٹائل انڈسٹری بند پڑی ہے۔ بھارت پر اضافی ٹیرف لگنے کے باعث پاکستان کے لیے ایک موقع پیدا ہوا ہے کہ وہ امریکی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات کو جگہ دے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان کو ویتنام، بنگلہ دیش اور کمبوڈیا سے سخت مسابقت درپیش ہوگی کیونکہ وہاں کاروباری لاگت پاکستان کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔
منی لانڈرنگ کے حوالے سے آئی ایم ایف کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ہارون اختر نے کہا کہ پاکستان اس وقت ایف اے ٹی ایف کے سا تھ گڈ اسٹینڈنگ میں ہے اور کسی گرے لسٹ میں شامل نہیں۔ ایف اے ٹی ایف ہی اس حوالے سے مرکزی ادارہ ہے اور پاکستان کے مسلسل ریویو ہوتے ہیں، اس لیے یہ مسئلہ سنجیدہ نوعیت کا نہیں اور حل ہو جائے گا۔
مزید پڑھیں :چھٹی کا اعلان،سرکاری دفاتر اور تعلیمی ادارے بند رہیں گے، نوٹیفکیشن جاری