پشاور ( اے بی این نیوز ) سربراہ جے یو آئی ف مولانا فضل الرحمن نے عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہو ئے کہا ہے کہ ایسی مجالس ہونی چاہیں جہاں پر کھل کر بات چیت ہوسکے ۔
قبائلی علاقوں میں مسلح و ہوں کا راج ہے۔ سرکاری فنڈز کا دس فیصد یہ مسلح گروہ لے جاتے ہیں ۔ تاجر کاروبار نہیں کر سکتے ہر کسی کو بھتہ دینا پڑتا ھے ۔ حکومت کی رٹ کے حوالے سے یہ بڑاسوالیہ نشان ہے
کے پی اور بلوچستان کے مدنی ذخائر عوام کی ملکیت ہیں ۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں سرمایہ کاری کریں تو نوکریوں اور وسائل مقامی لوگوں کا حصہ ھے ۔ بجائے معاملات کے حل کے طاقت ور ادارے اپنی اتھارٹی قائم کرنے کے چکر میں ہیں۔
فاٹا کا انضمام کیا ریاست اور حکومت آٹھ سال بعد کمیٹی بناتی ھے جرگہ سسٹم بحال کیا جائے ۔ جرگہ سسٹم کے تحت امن کی ذمہ داری قبائل کی ہوتی تھی ۔ جب آپ نے انضمام کرلیا تو پھر آٹھ سال بعد جرگہ سسسٹم کی ضرورت کیوں پڑی ۔
انضمام وسائل تک رسائی کیلئے کیا گیا ۔ جب بد امنی ھوگئی تو امن کی ذمہ داری قبائل کے کندھوں پر ڈالی جارہی ھے۔ بدقسمتی سے ملک کے سیاسی اور پارلیمانی نظام پر سوالیہ نشان ھے
یہ عوامی نمائندہ حکومت نہیں انتخابات میں عوام کا مذاق اڑایا گیا ۔
نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے وقت اجلاس میں موجودتھا ۔ ہم نے نیشنل ایکشن پلان کے کچھ حصوں پر اعتراض کیا ہماری نہیں سنی گئی ۔ ہم آج بھی کہتے ہیں نیشنل ایکشن پلان سے امتیازی حصوں کو نکالا جائے۔
لوچستان اور باجوڑ میں جنازے اٹھ رہے ہیں ۔ ملک میں امن لانے کیلئے مستحکم اکنامکس پلان بنایا جائے ۔ جب محرومیت کو فروغ ملے گا تو دہشتگردی بڑھے گی ۔
ہمیں قومی سطح پر نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت ھے۔
مزید پڑھیں :چھٹی کا اعلان،سرکاری دفاتر اور تعلیمی ادارے بند رہیں گے، نوٹیفکیشن جاری