اہم خبریں

پی ٹی آئی حکومت مذاکرات محض چا ئے کی پیالی میں طوفان،کون بنے گا اگلا وزیر اعظم،شاہ محمود کا کیام کردار ہوگا، اہم انکشافات

اسلام آباد( اے بی این نیوز         )پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما شیر افضل مروت نے اے بی این نیوز کے پروگرامڈبیٹ ایٹ 8 میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے حکومت مذاکرات کے نام پر پی ٹی آئی کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی کو اندرونی استحکام کے بغیر مذاکرات میں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ حکومت سنجیدہ نہیں، مذاکرات کی پیشکش محض ایک چال ہے۔ پی ٹی آئی کی اجتماعی حکمت عملی غیرواضح ،اتحادکافقدان ہے۔
مذاکرات کا وقت گزر چکا؟ اب عملی سیاست کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کو صفوں میں اتحاد اور نظم لانے کی ضرورت ہے۔ 5 اگست کی کال میں خاطرخواہ عوامی ردعمل نہ آ سکا۔ مذاکرات کی میز پر جانے سے پہلے پی ٹی آئی کو خود کو منظم کرنا ہوگا۔
صرف طاقتور عوامی دباؤ ہی حکومت کو مذاکرات پر مجبور کر سکتا ہے۔ احتجاج کی حکمت عملی کے بغیر سیاسی پیشرفت ممکن نہیں۔ حکومت پی ٹی آئی سے اپنی شرائط منوانا چاہتی ہے، بات چیت ثانوی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کے پی کے علاقوں میں آپریشن کا فیصلہ زمینی حقائق کی بنیاد پر ہونا چاہیے، کیونکہ اگر عوام کے تحفظ اور علاقے کے استحکام کے لیے آپریشن ناگزیر ہو تو اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ ان کے مطابق ماضی میں آپریشنز بڑے پیمانے پر ہوتے تھے جن میں لاکھوں لوگ بے گھر ہو جاتے تھے، لیکن اب دہشت گرد زیادہ تر پہاڑوں میں چھپتے ہیں اور کارروائیاں مخصوص اور محدود علاقے تک محدود رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے آپریشن ماضی سے مختلف نوعیت کے ہیں۔

شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ اگر کسی بڑے آپریشن کی ضرورت ہو جس سے پورے ضلع متاثر ہوں اور لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوں، تو اس کے لیے پارلیمنٹ میں بحث ہونا چاہیے اور عوامی نمائندوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور بار بار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آپریشن نہیں ہوگا، جبکہ عمران خان نے بھی جیل سے پیغام بھیجا ہے کہ کسی بڑے آپریشن سے گریز کیا جائے۔ مروت کے مطابق، اگر آپریشن کے فیصلے زمینی حقائق پر مبنی ہوں تو صوبائی حکومتیں انہیں روک نہیں سکتیں، لیکن بڑے پیمانے کی کارروائی پر اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں۔

شیر افضل مروت نے گفتگو کے دوران سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف مختلف مقدمات بنائے گئے لیکن انہیں سزا نہیں ہوئی۔ ان کے مطابق، قریشی مستقبل میں پی ٹی آئی کی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ ایک نرم گفتار اور مصالحت پسند شخصیت ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قریشی پارٹی کو احتجاجی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ مصالحت کی طرف بھی لے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دو سال کی قید کے بعد شاہ محمود قریشی اگر رہائی پاتے ہیں تو وہ پارٹی کو مشکلات سے نکالنے اور ریاست کے ساتھ بات چیت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مروت نے کہا کہ پارٹی کے اندر کچھ لوگ ان کے بیانات پر اعتراض کرتے ہیں۔ انہوں نے علیمہ خان کے اس الزام کو بھی رد کیا کہ وہ ایسے بیانات دیتے ہیں جن سے تحریک انصاف کے کاز کو نقصان پہنچتا ہے۔ مروت کے مطابق، وہ پارٹی کے مفاد کے خلاف کوئی بیان نہیں دیتے اور نہ ہی انہیں اس کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت سمجھتی ہے کہ وہ احتجاجی تحریک کو بغیر کسی اضافی کردار کے کامیاب بنا سکتی ہے تو وہ انہیں نیک خواہشات پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، عمران خان نے ہمیشہ احتجاجی سیاست کو اپنی سب سے بڑی طاقت سمجھا اور اس کا کریڈٹ بھی خود ہی لینا چاہا۔

شیر افضل مروت نے کہا کہ اب وہ تحریک انصاف کے اندرونی معاملات سے خود کو الگ رکھنا چاہتے ہیں، تاہم وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ پارٹی کو احتجاجی صلاحیت کے ساتھ ساتھ مصالحتی حکمت عملی بھی اپنانی چاہیے تاکہ موجودہ بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ مل سکے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا محسن نقوی کو وزیر اعظم بنا یا جا سکتا ہے تو تحریک انصاف کےسابق رہنما شیرافضل مروت نے کہا کہ پاکستان کی سیاست اس وقت بڑی جماعتوں کے اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات کے گرد گھوم رہی ہے۔ ان کے مطابق اگر مستقبل میں وزارتِ عظمیٰ کے لیے کسی نئے نام پر غور کیا گیا تو سب سے پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اپنے امیدواروں کو ہی ترجیح دیں گی، کیونکہ آصف زرداری بلاول بھٹو کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ نواز شریف کی خواہش ہے کہ مریم نواز وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوں۔

شیرافضل مروت نے کہا کہ اگر کسی غیر متوقع شخصیت کو سامنے لایا بھی گیا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں عوام کو کیا دلیل دی جائے گی اور ممبران اسمبلی کے پاس اس فیصلے کو جائز ثابت کرنے کے لیے کون سی منطق ہوگی؟ ان کا کہنا تھا کہ “بڑی جماعتوں کے ہوتے ہوئے کسی اور کو وزیراعظم بنانا عملی طور پر ممکن نظر نہیں آتا۔انہوں نے کہا کہ 14 اگست کے موقع پر بھی تمام قیادت نے متحد ہو کر یکجہتی کا پیغام دیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اختلافات کے باوجود ان جماعتوں کی مجبوری ہے کہ وہ ایک پیج پر رہیں۔

خیبر پختونخوا کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے شیرافضل مروت نے کہا کہ بعض اپوزیشن جماعتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ وہاں اپنی حکومت بنا سکتی ہیں اور فارورڈ بلاک بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ “علی امین گنڈاپور کے خلاف بھی ایک فضا موجود ہے۔قومی اسمبلی میں منظور ہونے والے حالیہ انسدادِ دہشت گردی ترمیمی بل پر بات کرتے ہوئے شیرافضل مروت نے اسے شہری آزادیوں کے خلاف قرار دیا۔ اس قانون کے مطابق کسی بھی مشکوک شخص کو 90 دن تک سیکیورٹی فورسز کی تحویل میں رکھا جا سکتا ہے۔میں ایسے قانون سازی کی کبھی حمایت نہیں کر سکتا۔ یہ براہِ راست انسانی آزادیوں اور آئین کے بنیادی آرٹیکلز سے متصادم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پہلے ہی ہنگامی قوانین موجود ہیں جنہیں ضرورت پڑنے پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس نئے قانون کے ذریعے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کا راستہ کھل گیا ہے۔ یہ انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کے خلاف ہے اور آئین کے آرٹیکلز 9، 10، 14، 25 اور 40 سے متصادم ہے۔

اس قانون کی کوئی ضرورت نہیں تھی، خصوصاً 13 اگست کے دن اسے پاس کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا،شیرافضل مروت نے کہا کہ انسدادِ دہشت گردی قوانین کا مقصد صرف ایسے جرائم کا تیز تر ٹرائل ہونا چاہیے جن میں حقیقی دہشت گردی شامل ہو، لیکن اس ترمیم نے بلاجواز گرفتاری اور طویل حراست کو قانونی شکل دے دی ہے جو جمہوری اقدار کے لیے خطرناک ہے۔سینئرسیاستدان فوادچودھری نے کہا کہ پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی مسائل کاشکارہے۔ پی ٹی آئی کی موجودہ پوزیشن مسائل میں گھری ہوئی اور پریشان کن ہے۔ حالیہ لیڈرشپ کے پاس صورتحال سنبھالنے کا کوئی واضح حل نہیں۔
نومبر سے پہلے کسی بڑی تبدیلی کا امکان کمزور نظر آ رہا ہے۔ پارٹی کی اندرونی سیاسی تنہائی بڑھتی جا رہی ہے۔ حالیہ صورتحال میں کوئی بڑی پیشرفت یا کامیابی نظر نہیں آ رہی۔ تحریک انصاف کوبڑے چیلنجز کا سامنا ہے اور مستقبل غیر واضح ہے۔ حالیہ سزاؤں کے بعد سختی جاری رکھنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ سول کورٹ کے فیصلے مزید سختی کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ 14 اگست پر پی ٹی آئی کی سرگرمیوں کو روکنے کی کوششیں جاری ہیں۔
آزادی مارچ اور دیگر سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ سیاسی ماحول مزید کشیدہ اور کنٹرول شدہ ہوتا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی پر دباؤ اور پابندیوں کا سلسلہ جاری رہنے کا خدشہ ہے۔ فارم 47 کے ذریعے سیاسی معاملات میں نئی رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ اپنے فیصلے مستقل کرتے رہیں گے۔ یہ فیصلے عوامی مفادات کی بجائے سیاسی مفادات کی بنیاد پر ہو رہے ہیں۔ ن لیگ کی موجودہ پوزیشن ایسی ہے کہ وہ کوئی بڑا سیاسی قدم نہیں اٹھا سکتی۔
سیاسی صورتحال میں مزید پیچیدگیاں اور غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔ پی ٹی آئی کی سیاست اور بانی کی عوامی مقبولیت میں گہرا تعلق موجود ہے۔ ان کی جدوجہد اور عوام کے ساتھ تعلق انہیں نمایاں کرتا ہے۔ کارکردگی میں کچھ اضافہ ہوا، مگر حکومتی گرفت کمزور ہے۔ کورونا بحران میں حکومت کی ناقص حکمت عملی سامنے آئی۔ سپریم کورٹ کے سوا حکومت کے پاس کوئی مضبوط سیٹ نہیں ہے۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں پی ٹی آئی کی حکمت عملی اہم کردار ادا کرے گی۔

مزید پڑھیں :پا کستان نے بھارت کے چھ سے سات طیارے مار گرائے ہیں، ٹرمپ

متعلقہ خبریں